آپ بچوں کے ماں باپ ہیں، بچے آپکے نہیں

http://www.syedlatifshah.blogspot.com/2018/01/guidelines-how-to-care-children.html

اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے اولاد کا ہونا بڑی نعمت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آنکھوں کی ٹھنڈک کہا ہے اور نبی کریمﷺ نے بچوں کو جنت کے پھول قرار دیا اس لئے اولاد کا ہونا خوش بختی کی علامت ہے اور بعض کو کسی مصلحت یا آزمایش کے مقصد سے اس سے محروم رکھتا ہے۔ پھر جن کو اولاد عطا کرتا ہے ان میں سے بعض کو لڑکے اور لڑکیاں دونوں دیتا ہے، بعض کو صرف لڑکے اور بعض کو صرف لڑکیاں۔ 
 سورۂ شوریٰ میں ارشادِ ربانی ہے:
لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ یَہَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ اِِنَاثًا وَّیَہَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ الذُّکُوْرَ oاَوْ یُزَوِّجُھُمْ ذُکْرَانًا وَّاِِنَاثًا وَیَجْعَلُ مَنْ یَّشَآءُ عَقِیْمًا اِِنَّہٗ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ o(الشورٰی۴۲: ۴۹۔۵۰)
اللہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کا مالک ہے جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے، جسے چاہتاہے لڑکے دیتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں ملا جلا کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کردیتا ہے۔ وہ سب کچھ جانتا اور ہر چیز پر قادر ہے۔
دین اسلام میں بچوں کی تربیت اور نگہداشت کو بہت اہمیت دی گئی ہے، بچے پر اثر انداز ہونے والے تین عوامل ہیں: گھر، مدرسہ اور معاشرہ۔   بچے کی زندگی پر سب سے زیادہ اثرات اس کے گھر کے ماحول کے ہوتے ہیں ماں کی گود بچے کی پہلی تربیت گاہ ہے اس لیے ماں کی بچے کی تربیت میں خاصا محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔گھر کے اندر اگر بچوں اور ماں باپ کے درمیان کمیونیکیشن نہ ہو تو اس سے بچوں کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اور آج کل کے سکولوں میں‌بچوں کے کردار کو بنانے پر کوئی کام نہیں‌کیا جاتا صرف اور صرف تعلیم دی جاتی ہے. بچہ گھر آئے تو اس کی تربیت شروع ہوتی ہے ماں‌پہلی اُستاد ہوتی ہے ۔
http://www.syedlatifshah.blogspot.com/2018/01/guidelines-how-to-care-children.html
ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اگر گھر سے بچوں کو تربیت  نہ ملے تو وہ باہر سے لیں گے جو کہ گمراہی اور فتنہ کا باعث بنے گا سکول کا کام ضرور کروائیں پڑھائی میں‌محنت بھی کروائیں مگر  گھر کو گھر اور سکول کو سکول ہی رہنے دیں. اگر بچے کو بہت زیادہ پڑھائی پر مجبور کیا جائے تو بچہ ماں‌سے نفرت کرنے لگتا ہےکیونکہ  بچوں کا ذہن سلیٹ کی مانند صاف ہوتا ہے انکا ذہن اچھی یا بری ہر قسم کی چیز کا فوراً اثر قبول کرتا ہے. اس لیے پڑھائی کے ساتھ انکی دلچسپی دیکھتے ہوئے انہیں کسی صحت مند مشغلہ میں مصروف رکھیں. ٹی وی وقت گزاری کا بہترین مشغلہ نہیں بلکہ سفلی خیالات جنم دینے کی مشین ہے اور ویڈیو گیمز بچوں کو بے حس اور متشدد بناتی ہیں. ایسے کھیل جن میں جسمانی مشقت زیادہ ہو وہ بچوں کے لیے بہترین ہوتے ہیں.آج کل بچوں کو ہم الگ کمرہ، کمپیوٹر اور موبائل جیسی سہولیات دے کر ان سے غافل ہو جاتے ہیں، یہ قطعاً غلط ہے۔ بچوں پر غیر محسوس طور پر نظر رکھیں اور خاص طور پر انہیں اپنے کمرے کا دروازہ بند کر کے بیٹھنے مت دیں کیونکہ تنہائی شیطانی خیالات کو جنم دیتی ہے. جس سے بچوں میں منفی خیالات جنم لیتے ہیں اور وہ غلط سرگرمیوں کا شکار ہونے لگتے ہیں۔
بچوں کے دوستوں اور بچیوں کی سہیلیوں پہ خاص نظر رکھیں تاکہ آپ کے علم میں ہو کہ آپکا بچہ یا بچی کا میل جول کس قسم کے لوگوں سے ہے. بچوں بچیوں کے دوستوں اور سہیلیوں کو بھی ان کے ساتھ کمرہ بند کرکے مت بیٹھنے دیں. اگر آپ کا بچہ اپنے کمرے میں ہی بیٹھنے پر اصرار کرے تو کسی نہ کسی بہانے سے گاہے بہ گاہے چیک کرتے رہیں۔ ہم اکثر سوچتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کو قابو میں رکھیں گے لیکن ہم نہیں رکھ پاتے۔بعض اوقات بچے تھکے ہونے کی وجہ سے چڑچڑے ہو جاتے ہیں اور چیختےچلاتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں آپ بچوں پر چلانے کی بجائے اور ان کو ڈانٹنے کی بجائے ان کےساتھ نرمی سے پیش آئیں اور اپنے غصے کو کنٹرول کریں۔اگر آپ کا بچہ چیخ چلا کر کسی چیز یا کھانے پینے کی اشیا کی ڈیمانڈ کرتا ہے تو اسے پیار سے سمجھائیں کہ اگر وہ آہستہ یا دھیمے لہجے سے بات کرے گا توہی اس کی بات سنی جائے گی اس طرح سے آپ اپنے بچے کے رویے کو بھی درست کر پائیں گے اور اپنے آپ کو قابو میں رکھنے سے اپنی ذات میں بھی مثبت تبدیلی محسوس کریں گے۔ اور اگر بچہ ضد پر اڑ جائے تو اسے بتائیں کہ یہ ٹھیک نہیں لیکن بعض اوقات آپ اس کی ضد کو پورا کر دیں صرف اس شرط پر کہ اگلی بار ایسا نہیں ہو گا اور یادرکھیں اگلی بار ایسا ہونا بھی نہیں چاہیے۔ایسی صورتحال میں اگر بچہ بے جا تنگ کرنا شروع کر دے تو انتہائی عقلمندی اور سلیقے سے جوتے کا استعمال  کیا جائے کہ  اگلی بار بچے کو آنکھ ہی دکھاؤ تو وہ سمجھ جائے ۔اور ہر بات پر مارنے سے بچہ ڈھیٹ ، ضدیاورباغی   ہو جاتا ہے ۔بغاوت کی اجازت گھر میں نہیں دی جا سکتی۔ بعض اوقات ہم اپنے بچوں کے ساتھ گھر کے اندر جنگ کا محاذ بنا لیتے ہیں اور ان کی ہر بات پر اختلاف کرتے ہیں جس کی وجہ سے بچہ بھی تناؤ میں رہتا ہے اور وہ کوئی بھی کام نہیں کر پاتا جو آپ کیلئے مزید پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ اور  ہم اپنے بچوں کو اپنے خلاف کھڑا پاتے ہیں جو ہمارے لئے انتہائی تکلیف دہ عمل ہے۔آپ کے کہنے کے باوجود وہ کام جو ان کی مرضی کے خلاف ہو یاتو وہ کام کرنے سے پہلے منہ بناتے ہیں یا  صاف انکار بھی کر دیتے ہیں جس سے آپ کے اور بچوں کے درمیان تضاد شروع ہو جاتا ہے۔اکثر  ایسےبچے اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ بھی بلاوجہ جھگڑا کرتے ہیں جو گھریلو ناچاقی کا باعث بنتے ہیں۔ اس طرح کے حالات سے بچنے کیلئے آپ کو اپنے بچے کے نظریات اور اس کی باتوں کو اہمیت دینے کی ضرورت ہو گی ان کے ساتھ نرمی سے پیش آنا ہو گا آپ کو چاہئے کہ ایسے بچے پر خصوصی توجہ دیں اس کی بات کو سنیں   خواہ وہ کتنی معمولی کیوں نہ ہو ترجیح دیں ان کی بات کو اور اس کے ساتھ پیار اور محبت سے پیش آئیں  کیونکہ آپ کے  روئیے  ہی  سے آپ کے بچے کے روئیے میں بہت مثبت تبدیلی آئے گی۔ کبھی کبھار ذہنی تناؤ زیادہ ہونے کی وجہ سے ہم اپنا غصہ بچوں پر نکالتے ہیں جس سے بچے بھی ذہنی تناؤ محسوس کرتے ہیں۔کبھی بھی اپنے تناؤ کا غصہ اپنے بچوں پر مت نکالیں۔ آپ جب گھر کے اندر داخل ہوں تو باہر کی  دنیا کو باہر ہی چھوڑ کر آئیں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول اپنے پلے سے باندھ لیں کہ جب مرد اپنے گھر کے اندر داخل ہوتو ایک بچے کی طرح ہو جائے جس سے کسی کو خطرے کا گمان بھی نہ ہو اور جب گھر سے باہر جائے تو ایسے ہو جائے جیسے شیر ہوتا ہے۔
یاد رکھیں اللہ نے آپکو اولاد کی نعمت سے نواز کر ایک بھاری ذمہ داری بھی عائد کی ہے. بچوں کو رزق کی کمی کے خوف سے پیدائش سے پہلے ہی ختم کردینا ہی قتل کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ اولاد کی ناقص تربیت کرکے انکو جہنم کا ایندھن بننے کے لئے بے لگام چھوڑ دینا بھی انکے قتل کے برابر ہے. اپنے بچوں کو نماز کی تاکید کریں اور ہر وقت پاکیزہ اور صاف ستھرا رہنے کی عادت ڈالیں. کیونکہ جسم اور لباس کی پاکیزگی ذہن اور روح پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتی ہے. اس طرح اپنے بچوں کی تمام حرکات و سکنات کو پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ اور سیرت طیبہ سے جوڑنے کا اہتمام کرنا چاہیے اور انهیں پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری پیاری حدیثیں سکھانی چاہیے.
آجکل چونکہ   اور FacebookWhatsapp کا دور ہے اور تقریبا ہر آدمی واٹس ایپ  اور فیس بک  استعمال کر رہا ہے ۔جو لوگ گروپ استعمال کر رہے ہیں انھوں نے محسوس کیا ہو گا کہ بعض لوگ گروپ میں ہر وقت فحش مواد     پوسٹ کرتے رہتے ہیں  اور تو  اور  پچاس روپے میں پورن ویڈیوز سے میموری کارڈ فل کر کے دے دیا جاتا ہو ، انٹرنیٹ پر ایک لفظ "Sex" لکھنے سے بچہ کی  فحش مواد تک رسائی ممکن ہے ۔ چند فی صد لبرل مسلمانوں کو چھوڑ کر ہمارے گھروں کے بزرگوں کی اکثریت آج کی نوجوان نسل میں بڑھتی بے راہ روی سے پریشان ہے۔تو یہ ضروری ہے کہ  بچے کو بچپن  ہی سے  پرائیویٹ باڈی پارٹس کا تصور واضح طور پر سمجھائیں، .
http://www.syedlatifshah.blogspot.com/2018/01/guidelines-how-to-care-children.html
بچوں کو عادی کریں کہ کسی کے پاس تنہائی میں نہ جائیں چاہے رشتہ دار ہو یا اجنبی اور نہ ہی کسی کو اپنے اعضائے مخصوصہ کو چھونے دیں اور نوعمر بچوں کی نگرانی بھی والدین کی ذمہ داری ہے۔تو یہ بھی ضروری ہے کہ نوعمر یا بلوغت کے قریب پہنچنے والے بچوں اور بچیوں کو اپنے وجود میں ہونے والی تبدیلیوں اور دیگر مسائل سے آگاہ کیا جائے ہمیں اپنے بچوں کو اپنے مشفقانہ عمل سے اپنی خیرخواہی کا احساس دلانا چاہیے اور نوبلوغت کے عرصے میں ان میں رونما ہونے والی جسمانی تبدیلیوں کے متعلق رہنمائی کرتے رہنا چاہیے اورجسمانی تبدیلی کے  متعلق موضوعات پر جوان ہوتے بچوں سے گفتگو کرتے ہوئے کبھی نہ ہچکچائیں بلکہ ان کے ہر سوال کا معقول اور تسلی بخش جواب دیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو وہ بچہ وہ گھر کے باہر دوستوں یا انٹرنیٹ سے غلط سلط معلومات پہ عمل کرکے اپنی زندگی خراب کر لےگا اور گمراہ ہو جائے گا۔ بچوں کو بچپن ہی سے اپنے مخصوص اعضاء کو مت چھیڑنے دیں۔ یہ عادت آگے چل کر بلوغت کے نزدیک یا بعد میں بچوں میں اخلاقی گراوٹ اور زنا کا باعث بن سکتی ہے۔
بلوغت کے نزدیک بچے جب واش روم میں معمول سے زیادہ دیر لگائیں تو کھٹک جائیں اور انہیں نرمی سے سمجھائیں. اگر ان سے اس معاملے میں بار بار شکایت ہو تو تنبیہ کریں، لڑکوں کو انکے والد جبکہ لڑکیوں کو ان کی والدہ سمجھائیں۔
بچوں کا 5 یا 6 سال کی عمر سے بستر اور ممکن ہو تو کمرہ بھی الگ کر دیں تاکہ انکی معصومیت تا دیر قائم رہ سکے ۔ بچیوں کو سیدھا اور لڑکوں کو الٹا لیٹنے سے منع کریں۔  حضرت عمر رضی اللہ اپنے گھر کی بچیوں اور بچوں پر اس بات میں سختی کرتے تھے۔ ان دو پوسچرز میں لیٹنےسے سفلی خیالات زیادہ آتے ہیں، بچوں کو دائیں کروٹ سے لیٹنے کا عادی بنائیں۔
بچوں کے کمرے اور چیزوں کو غیر محسوس طور پر چیک کرتے رہیں آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ آپ کے بچوں کی الماری کس قسم کی چیزوں سے پر ہے  بچوں کو بستر پر جب جانے دیں جب خوب نیند آ رہی ہو اور جب وہ اٹھ جائیں تو بستر پر مزید لیٹے مت رہنے دیں۔
والدین بچوں کے سامنے ایک دوسرے سے جسمانی بے تکلفی سے پرہیز کریں ورنہ بچے وقت سے پہلے ان باتوں کے متعلق با شعور ہو جائیں گے جن سے ایک مناسب عمر میں جا کر ہی آگاہی حاصل ہونی چاہئے . نیز والدین بچوں کو ان کی غلطیوں پہ سر زنش کرتے ہوئے بھی با حیا اور مہذب الفاظ کا استعمال کریں ورنہ بچوں میں وقت سے پہلے بے باکی آ جاتی ہے جس کا خمیازہ والدین کو بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ بچی اور بچے دونوں کو حیا کا تصور دیں،مرد رشتہ داروں کی خواہ  وہ  والد ہی کیوں نہ ہوں حدود مقرر کریں۔
اس افراتفری کے دور میں ہم اپنے بچوں کو بہت زیادہ نظر انداز کرتے ہیں ان کی ضروریات کو نہیں سمجھ پاتے اور خیالات کو دبا دیتے ہیں جسکی وجہ سے ہمارے اور بچوں کے درمیان نہ چاہنے والے حالات پیدا ہو جاتے ہیں۔بعض اوقات حالات اس قدر بھیناک رُخ اختیار کر جاتے ہیں کہ بچے والدین کے تشدد،بے انصاف اور غیر فطری رویے سے مایوس ہو کر خود کشی کر لینے تک جا پہنچتے ہیں۔ایسے بھیانک حادثے ہماری زندگی کیلئے پچھتاوے کا باعث بن جاتے ہیں۔روزانہ خبروں میں کیا آپ ایسی کوئی نہ کوئی خبر نہیں پڑھتے کہ بچے کو موٹر سائیکل نہ لے کر دینے پر خودکشی کر لی یا پکنک کی اجازت نہ دینے پر گلے میں پھندا ڈال لیا۔ایسے دُکھوں سے بچنے کیلئے اپنے بچوں پر خصوصی توجہ دیں ان کے مسئلوں کو غور سے سنیں اور زندگی کے ہر موقع پر ان کی رہمنائی کریں تاکہ زندگی کے کسی بھی مقام پر آپ کے بچے کے اندر اعتماد کی کمی نہ ہو اور بچوں کا بھی آپ کے اوپر مکمل بھروسہ رہے۔ (ہمارے معاشرے میں) عموماً بچیوں کو تو مائیں بہترین بیوی بننے کے گر سکھاتی رہتی ہیں، مگر اس کے برعکس وہ بیٹوں کو ایک بہترین مسلمان شوہر بننے کی تلقین کبھی نہیں کرتیں۔ ہمارے معاشرے میں اس چیز کی بے حد کمی ہے۔ اس کی طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔جس کی مثال سامنے ہے  ‏آج 7 سالہ زینب کا نہیں پوری پاکستانی قوم کی غیرت کا جنازہ نکلا ہے۔۔ ‏پھول جیسے چہرے کو کیسے مسل دیا ایک انسان نے؟‏سب سے دردناک لمحہ  یہ کہ  عمرے پر جانے سے پہلے ان کے سامنے زینب کا پھول جیسا چہرہ تھا، اور واپسی پر اس کی قبر پر پھول۔قصور میں زینب کا کیا قُصور۔
 یاد رہے، ظلم کے کھیتوں میں کبھی محبت و شفقت کے پھول نہیں کھلتے۔ اگر ایک مرد اپنی بیوی، بہن اور بیٹی کے ساتھ ظلم یا خود پسندی کا رویہ اختیار کرے گا تو اس سے بیمار معاشرہ ہی پیدا ہوگا، جیسا ہمیں دکھائی دیتا ہے۔ کیا ہمیں معاشرے کو نہیں بدلنا؟
والدین کو چاہیے کہ لڑکوں کو "قوام” کے درست معنی سمجھائیں اور بتائیں کہ وہ عورتوں کے آقا اور مالک نہیں بلکہ وہ ان آبگینوں کے نازک جذبات، احساسات، خواہشات و ضروریات کے نگہبان ہیں۔ ہمارے معاشرے نے بے جا طور پر، جو جھوٹی شان، تمکنت، رعونت، کرختگی اور آمرانہ روش لڑکوں اور بیٹوں کے ذہنوں میں بٹھا دی ہے، وہ اسلام اور اخلاق دونوں حوالوں سے غلط ہے۔ مردانگی تو یہ ہے کہ عورت کو بحیثیت ماں، بیٹی، بیوی اور بہن کے قدر و منزلت دی جائے۔
ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی ابھی بھی وقت ہے کہ آپ اپنے بچوں پر دھیان دینا شروع کر دیں، آپ اپنے بچوں کو گائیڈ نہیں کریں گے تو وہ باہر سے سیکھیں گے جس میں زیادہ تر غلط اور من گھڑت ہوگا جس سے ان کے اذہان آلودہ ہوں گے۔ اکثر والدین بچوں کی بہت سے عادات کو کھیل کود کی عمر کہہ کر نظر انداز کرتے رہتے ہیں، مگر بالغ ہو جانے پر ایک دم ان کو احساس ہوتا ہے کہ یہ تو غلط رخ پر جا رہے ہیں۔ پھر وہ راتوں رات ان کو ہر لحاظ سے معیاری درجے پر دیکھنا چاہتے ہیں، یہی ناسمجھی کی بات ہے۔ بچے کی پرورش، تعلیم و تربیت ہر سال، ہر دن اور ہر لحظہ کی ختم نہ ہونے والی منصبی ذمہ داری ہے۔ ۔ اسلام نے اولاد اور والدین کا تعلق دنیا سے لے کر آخرت تک قائم رکھا ہے۔ وہ دونوں جہانوں میں ایک دوسرے کا قرب پا کر ہی تکمیل پائیں گے۔ بچوں سے اپنا قلبی و ذہنی تعلق مضبوط کرنے کے لئے میڈیا کے بے لگام گھوڑے کو اپنے گھر میں نہ دوڑائیں، بلکہ گھر میں قرآن و سنت کی ہفتہ وار مجلس رکھی جائے۔ تیرہ، چودہ سال کے ہوں تو لڑکوں کو انکے والد اور بچیوں کو انکی والدہ سورۃ یوسف اور سورۃ النور کی تفسیر سمجھائیں یا کسی عالم ، عالمہ سے پڑھوائیں. کہ کس طرح حضرت یوسف علیہ السلام نے بے حد خوبصورت اور نوجوان ہوتے ہوئے ایک بے مثال حسن کی مالک عورت کی ترغیب پر بھٹکے نہیں. بدلے میں اللہ کے مقرب بندوں میں شمار ہوئے. اس طرح بچے بچیاں انشاءاللہ اپنی پاکدامنی کو معمولی چیز نہیں سمجھیں گے اور اپنی عفت و پاکدامنی کی خوب حفاظت کریں گے. لباس ساتر کا اہتمام کریں شرعی حدود کا خیال رکھیں محرم اور نا محرم کی تمیز روا رکھیں اپنے گھروں کو اشتہاروں یا ڈراموں کا سیٹ نہ سمجھیں پناہ گاہ بنائیں بچوں کو اذکار کی عادت ڈالیں خود بھی حفاظت کی دعائیں پڑھیں اللہ ہم سب کو اپنی عافیت اور امان کی چادر میں ڈھانپ لے آمین۔
http://www.syedlatifshah.blogspot.com/2018/01/guidelines-how-to-care-children.html
------------------------
اسے بھی  ضرور پڑھیں۔

Comments

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Popular posts from this blog

سلام کو عام کرو

ہزار مہینوں سے افضل شب "شبِ قدر"

ٹھوکر وہی کھاتا ہے جو راستے کے پتھر نہیں ہٹاتا

Al-Asma-ul-Husna ( اَلاسْمَاءُ الْحُسناى ) The 99 Most Beautiful Names and Attributes of Allah the Almighty

hazrat baba bulleh shah

Islamic Duas Every Muslim Must Memorize and Recite Daily Life

SADAQA