مسلم سپہ سالار سلطان نور الدین زنگی کا خواب


سلطان نورالدین زنگی نے نبی کریم ﷺ کے حکم پر کس طرح ایمانی جذبے کیساتھ ناموس رسالت کیلئے  نصرانیوں کو جہنم واصل کیا۔

نور الدین زنگی ان خوش نصیب انسانوں میں سے ایک ہیں جنہیں خواب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار نصیب ہوا ہے


"یہ واقعہ مدینہ کی تاریخ کی تقریباً تمام کتب میں موجود ہے۔ اس کا ذکر شیخ محمد عبد الحق محدث دہلوی علیہ رحمہ نے بھی اپنی کتاب "تاریخ مدینہ" میں تین بڑی سازشوں کے ساتھ کیا ہے جس میں سے یہ واقعہ سب سے مشہور ہے۔"
واقعہ پیش خدمت ہے۔
سمہودی کے قول کے مطابق یہ سازش 557 ھ میں مرتب کی۔ اس وقت شام کے بادشاہ کا نام سلطان نور الدین زنگی تھا اور اس کے مشیر کا نام جمال الدین اصفہانی تھا۔ ایک رات نمازِ تہجّد کے بعد سلطان نور الدین زنگی نے خواب میں دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو سرخی مائل رنگت کے آدمیوں کی طرف اشارہ کرکے سلطان سے کہہ رہے ہیں کہ "مجھے ان کے شر سے بچاؤ۔" سلطان ہڑبڑا کر اٹھا۔ وضو کیا' نفل ادا کیے اور پھر اس کی آنکھ لگ گئی۔ خواب دیکھنے کے بعد آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟ اس کا اب کسی سے ذکر نہ کریں اور فوراً مدینہ روانہ ہوجائیں۔




اب سلطان کو قرار کہاں تھا انہوں نے چند ساتھی، سپاہی اور بہت سے تحائف کے ساتھ دمشق سے مدینہ جانے کا ارادہ فرمایا .اس وقت دمشق سے مدینہ کا راستہ ٢٠-٢٥ دن کا تھا مگر آپ نے بغیر آرام کیئے یہ راستہ ١٦ دن میں طے کیا ، اور سولہویں روز شام کے وقت وہاں پہنچ گیا ، سلطان نے روضہٴ رسول پر حاضری دی اور مسجدِ نبوی میں بیٹھ گیا۔ اعلان کیا کہ اہل مدینہ مسجد نبوی میں پہنچ جائیں جہاں سلطان ان میں تحائف تقسیم کرے گا،آپ نے مدینہ آنے اور جانے کے تمام راستے بند کروا ئے۔

اب لوگ آتے گئے اور سلطان ہر آنے والے کو باری باری تحفہ دیتا رہا۔  آپ ہر چہرہ دیکھتے مگر آپکو وہ دوچہرے نظر نہ آئے جو اسے ایک رات میں تین بار خواب میں دکھائے گئے تھے اب سلطان کو فکر لاحق ہوئی اور آپ نے مدینے کے حاکم سے فرمایا :

"کیا مدینہ کا ہر شہری مجھ سے مل چکا ہے۔؟

." جواب اثبات میں تھا۔ سلطان نے پھر پوچھا۔ "کیا تمہیں یقین ہے کہ ہر شہری مجھ سے مل چکا ہے؟" اس بار حاضرین نے کہا، مدینے میں رہنے والوں میں سے تو کوئی نہیں مگر دو مغربی زائر ہیں جو روضہ رسول کے قریب ایک مکان میں رہتے ہیں ، صوم و صلوٰة کے پابند، تمام دن عبادت کرتے ہیں اور شام کو جنت البقیح میں لوگوں کو پانی پلاتے ہیں ، جو عرصہ دراز سے مدینہ میں مقیم ہیں، فیاض اور مہمان نواز ہیں،کسی کا دیا نہیں لیتے۔

سلطان نے کہا۔ "سبحان اللہ !" اور حکم دیا کہ ان دونوں کو بھی اپنے تحائف وصول کرنے کے لیے فوراً بلایا جائے۔

جب انہیں یہ خصوصی پیغام ملا تو انہوں نے کہا۔ "الحمد للہ ! ہمارے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے اور ہمیں کسی تحفے تحائف یا خیر خیرات کی حاجت نہیں۔ " جب یہ جواب سلطان تک پہنچایا گیا تو اس نے حکم دیا کہ ان دونوں کو فوراً پیش کیا جائے۔ حکم کی فوری تعمیل ہوئی۔ ایک جھلک ان کی شناخت کے لیے کافی تھی تاہم سلطان نے اپنا غصہ قابو میں رکھا اور پوچھا۔ "تم کون ہو۔.؟ یہاں کیوں آئے ہو؟" انہوں نے کہا "ہم مراکش کے رہنے والے ہیں۔ حج کے لیے آئے تھے اور اب روضہٴ رسول کے سائے میں زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ " سلطان نے سختی سے کہا۔ "کیا تم نے جھوٹ بولنے کی قسم کھا رکھی ہے؟" اب وہ چپ رہے۔

سلطان نے حاضرین سے پوچھا۔ یہ کہاں رہ رہے ہیں؟" بتایا گیا کہ روضہٴ نبوی کے بالکل نزدیک ایک مکان میں جو مسجدِ نبوی کے جنوب مغرب میں دیوار کے ساتھ تھا۔ سلطان فوراً اٹھا اور انہیں ساتھ لے کر اس مکان میں داخل ہو گیا۔ سلطان مکان میں گھومتا پھرتا رہا۔ اچانک نئے اور قیمتی سامان سے بھرے ہوئے اس مکان میں اس کی نظر فرش پر پڑی ہوئی ایک چٹائی پر پڑی۔ نظر پڑنی تھی کہ دونوں کی ہوائیاں اڑ گئیں۔ سلطان نے چٹائی اٹھائی۔ اس کے نیچے ایک تازہ کھدی ہوئی سرنگ تھی۔

آپ نے اپنے سپاہی کو سرنگ میں اترنے کا حکم دیا .وہ سرنگ میں داخل ہویے اور واپس اکر بتایا کہ یہ سرنگ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف جاتی ہے،

یہ سن کر سلطان کے چہرے پر غیظ و غضب کی کیفیت طاری ہو گئی ،

سلطان نے گرج کر کہا۔ "کیا اب بھی سچ نہ بولو گے؟؟؟"

ان کے پاس سچ کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ حیل و حجت کے بعد انہوں نے بتایا کے وہ  نصرانی  ہیں اور ان کے حکمراں نے انہیں بہت سا مال و زر اور ساز و سامان دے کر حاجیوں کے روپ میں مراکش سے اس منصوبے پر حجاز بھیجا تھا کہ وہ کسی نہ کسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسدِ اقدس روضہٴ مبارک سے نکال کر لے آئیں۔ اس ناپاک منصوبے کی تکمیل کے لیے انہوں نے حج کا بہانہ کیا اور اس کے بعد روضہٴ رسول سے نزدیک ترین جو مکان کرائے پر مل سکتا تھا' وہ لے کر اپنا مذموم کام شروع کر دیا۔ ہر رات وہ سرنگ کھودتے اور ہر صبح کھدی ہوئی مٹی چمڑے کے تھیلوں میں بھر کر جنّت البقیع لے جاتے اور اسے قبروں پر بکھیر دیتے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی ناپاک مہم بالکل آخری مراحل میں تھی کہ رات موسلادھار بارش کے ساتھ ایسی گرج چمک ہوئی جیسے زلزلہ آ گیا ہو اور اب جب کہ ان کا کام پایہٴ تکمیل کو پہنچنے والا تھا تو سلطان نہ جانے کیسے مدینے پہنچ گئے۔

سلطان ان کی گفتگو سنتے جاتے اور روتے جاتے اور ساتھ ہی فرماتے جاتے کہ "میرا نصیب !!! کہ پوری دنیا میں سے اس خدمت کے لیے اس غلام کو چنا گیا"


سلطان نور الدین زنگی نے حکم دیا کہ ان دونوں کو قتل کر دیا جائے اور روضہٴ مبارک کے گرد ایک خندق کھودی جائے ۔

اس ناپاک سازش کے بعد ضروری تھا کہ ایسی تمام سازشوں کا ہمیشہ کہ لیے خاتمہ کیا جاۓ، سلطان نے معمار بلاۓ اور قبر اقدس کے چاروں طرف اتنی گہری خندق کھدوائی کہ پانی نکل آیا ،پھر لاکھوں من سیسہ پگھلوا کر اس میں ڈلوایا اور سطح زمین تک سیسہ کی زمین دوز ٹھوس دیوار قائم کر دی تاکہ آئندہ کوئی دشمن ایسی حرکت کر کے رخ جسد مطہر(مبارک) تک کوئی رسائی نہ پا سکے۔
 ‏سیسے  کی یہ  ‏خندق  آج بھی  ‏ روضہہ رسول ﷺ کے گرد موجود ہے،مذکورہ بالا واقعہ 558ھ (مطابق 1142ء) کا ہے۔

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌاللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدمسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا یہ ایمان ہے کہ نبی پاک حضرت محمد ﷺ کے روضہ اقدس کی زیارت اور آپ ﷺ پر درود و سلام کا نذرانہ پیش کرنا اہم اور افضل عبادت ہے۔ یہ اپنے پروردگار کی خوشنودی اوراس کا قرب حاصل کرنے کا قریب ترین ذریعہ بھی ہے۔
یہ اپنی خطاؤں اور گناہوں کی بخشش اور اﷲ کی رحمت و برکت و مغفرت کا قوی سہارا بھی ہے۔
 ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’اﷲ اور اس کے فرشتے نبیؑ پر درود (یعنی رحمت) بھیجتے ہیں ۔ اے ایمان والوتم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو‘‘۔ (سورۃ احزاب ۳۳:۵۶)۔

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيد

 کلام مجید کی سورۃ النساء میں ارشاد ِ ربانی ہے ’’اور اگر یہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں تو اے محبوب وہ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوں اور اﷲ سے مغفرت طلب کریں اور اﷲ کے رسول ﷺ بھی ان کے لیے سفارش کریں تو وہ ضرور بہ ضرور اﷲ کو خوب توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم فرمانے والا پائیں گے‘‘۔


ماڈل  کے ذریعے روضہ رسول ﷺ کے اندرونی منظر کا بیان



Comments

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

More post for you might like it

Watermelon a symbol of Summer

Mint and Cucumber detox water

Unique secret of a Healthy Life from Basil Seeds

Break The Silence

مٹی کا گھروندا یا جنت کا محل

Repentance, The act of seeking forgiveness

Unlocking Cardamom's Secret to a Healthy Life

سلام کو عام کرو

Mango is a true symbol of the season.