طرز ِکلام


شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات

بولنا اگر چاندی ہے تو خاموشی سونا۔
گفتگو کرنا بلکہ اچھی گفتگو کرنا کسی فن سے کم نہیں اور یہ فن اُن لوگوں کو آتا ہے جن کا مطالعہ اور سوچ وسیع ہو ,زندگی کے ہر شعبے سے تھوڑی بہت واقفیت ضرور ہو تاکہ کسی بھی موضوع پر بات کی جا سکے ۔
گفتگو کے ماہر وہ لوگ  ہوتے ہیں جو بات کرتے ہوئے مخاطب کے موڈ کا خیال رکھیں اگر کوئی مذاق کے موڈ میں نہ ہو اور بات کرنے والا بلاوجہ بولتا جائے تو اکتاہٹ لازمی ہے ، اسی طرح اگر کوئی شخص میٹھے اور نرم لہجے میں بات کرنے کا عادی ہو اور ساتھ ہی اُس کی “ میں “ ختم نہ ہو یعنی خود کو ہر بات میں دوسروں سے برتر ظاہر کرنا ہر بات میں دوسرے کی نفی کرنا ایسے لوگوں کی میٹھی باتیں زہر اور لہجہ خار سے کم محسوس نہیں ہوتا ۔
شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات
چھوٹے بچّوں کے توتلے تلّفظ اور ادائیگی کا جو دلکش اور حسین لہجہ ہوتا ہے اُس پر تو قربان ہونے کا دل چاہتا ہے ۔
لہجہ حاکمانہ ہو ، طنزیہ و تنقیدی یا چاپلوسی والا، موقع کی مناسبت سے ہی سجتا ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ لوگ جن کو گفتگو کا فن آتا ہے ان کو کم پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کی گفتگو موثر ہوتی ہے اور سننے والا دس کام چھوڑ کر بھی ان کی بات سنتا اور سمجھتا ہے۔
کہتے ہیں کہ کسی بادشاه نے خواب میں دیکھا کہ اسکے تمام دانت گر چکے ہیں. بادشا نے معبر بلوایا اور اس سے خواب بیان کیا. معبر نے خواب سنا تو اسکا رنگ فق ہوگیا. وه اعوذ باللہ اعوذ باللہ کہنے لگا
بادشاه نے گھبرا کر دریافت کیا: "کیا تعبیر ہے اس خواب کی؟"
معبر نے ڈرتے ڈرتے کہا: "چھ سال کے بعد آپکے خاندان کے سب افراد وفات پا جائیں گے اور آپ سلطنت میں اکیلے ره جائیں گے."
یہ سن کر بادشاه طیش میں آگیا. اس نے معبر کو خوب گالیاں دیں اور کوڑے لگانے کا حکم دیا. بادشاه نے دوسرا معبر حاضر کرنے کا حکم دیا. وه آیا تو بادشاه نے اسے خواب سنایا اور تعبیر پوچھی. معبر خوش روئی سے مسکرایا اور بولا: "خوشخبری ہو. سراسر خیر ہے. سراسر بھلائی ہے ، بادشاه سلامت."
بادشاه نے پوچھا : "وه کیسے؟"
معبر نے دانت نکالتے ہوئے جواب دیا: "اسکی تعبیر یہ ہے کہ آپ کی عمر لمبی ہوگی، آپ خاندان میں سب سے آخر میں فوت ہوں گے اور تمام عمر بادشاه رہیں گے."
بادشاه تعبیر سن کر بے حد خوش ہوا اور معبر کو انعام و اکرام سے نوازا.
بات ایک ہی تھی لیکن مختلف طریقوں سے کہی گئی. پہلی تعبیر سے بادشاه ناراض ہوا اور وہی بات دوسرے انداز سے کہی گئی تو بادشاه خوش ہوا اور معبر کو انعام و اکرام سے نوازا.
غلط تھے وعدے مگر میں یقین رکھتا تھا
وہ شخص لہجہ بڑا دلنشین رکھتا تھا
پراثر گفتگو کے لیے ضروری ہے کے سب سے پہلے آپ جس ماحول میں گفتگو ہو رہی ہے اس کو سمجھیں۔ تھوڑی سی محنت سے آپ بھی پراثر گفتگو کا ہنر سیکھ سکتےہیں۔اور مسلسل مشق سے اس قابل ہو سکتے ہیں کہ جب آپ بات کریں تو آپ جو کہنا چا رہے ہوں وہ کہہ سکیں۔ آپ کو خود بھی محسوس ہو کہ آپ کی بات کو سنا گیا اور وہ بے اثر نہیں رہی۔ مندرجہ ذیل عادتوں کواپنا کرکے آپ بھی پراثر گفتگو کرنا سیکھ سکتے ہیں۔
٭  موضوع کی مناسبت سے وقت کا انتخاب کریں۔ بات چاہے کتنی ہی مختصر ہو وقت کا موزوں ہونا انتہائی ضروری ہے۔
٭ لہجے /طرز ِکلام  کا دھیان رکھیں۔دورانِ گفتگو چاہے آپ کھڑے ہوں یا بیٹھے ۔ آپ کا طرز ِکلام  آپ کے بات شروع کرنے سے پہلے ہی سننے والے کو بہت کچھ کہہ دیتا ہے۔ سننے والا وقت کے ساتھ ساتھ بات بھول جائے گا مگرآپ کا لہجہ یاد رہ جائے گا۔اس لیے بات پکی اور سچی ہو ،مگر انداز تکلم سلیقہ، نرمی، خوش آہنگی کاہو،  خدا کے محبوب ترین بندےحضرت  موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے پاس جانے اور دعوت دینے کا حکم ملتا ہے، لیکن سلیقہ اور نرمی سے بات کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔

فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَيِّنًا لَعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَىٰ ﴿سورة طه 44﴾

پھر اس سے نرمی کے ساتھ بات کرو۔شاید وہ نصیحت قبول کرلے یا ( عذاب الہٰی سے) ڈر جائے۔

 تاکہ وہ نصیحت پکڑے یاسلیقہ کی بات سن کر اس کے دل میں خشیت وخوف پیدا ہوجائے اور اپنے کفروطغیان اور شروظلم سے باز آئے، اگر بھلی بات کے کہنے کاانداز بری طرح ہو تو وہ کار آمد ثابت نہیں ہوتا۔بھلی بات کو بھلی طرح کہنا ہی حسن سلیقہ اور حکمت ہے، اگر مخاطب سے سوال وجواب بھی کرنا پڑے تو اس میں بھی سلیقہ ہونا چاہئے، ان کے ساتھ اچھے طریقے سے بحث کیجئے۔تاکہ سننے والے اور دیکھنے والے داعی کے طریقۂ استدلال سے متاثر ہوں، چاہے مخاطب پر اثرنہ ہو، اگر طریقۂ بحث ومجادلہ احسن طریقہ پر ہوگا تو مخاطب عقل سلیم اور نیک فطرت کی بنا پر خود متاثر ہوگا، اگر ایسا نہ ہوا تو بھی حاضرین و سامعین پر حسنِ مجادلہ کا ضرور اثر پڑے گا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ایک شخص نے رسول کریم ﷺ سے ملاقات کی اجازت طلب کی آپ ﷺ نے فرمایا اسے اجازت دے دویہ شخص اپنے قبیلہ کا برا آدمی ہے ۔جب وہ شخص آیا تو آپ ﷺ نے اس کے ساتھ نرمی سے گفتگو کی۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسولؐ آپ نے اس کے متعلق وہ فرمایا تھا پھر آپ ﷺ نے اس سے نرمی سے بات کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا اے عائشہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے برا شخص وہ ہوگا جس کی بد زبانی کی وجہ سے لوگ اس سے ملنا ترک کردیں۔
(مسلم ،کتاب البر والصلۃ)
٭ لہجے اور بات میں مماثلت ہو، جیسے کسی سے دکھ کے اظہار پر لہجے میں ہمدردی اور احساس کی ضرورت ہوتی ہے ایسے ہی کسی کی کامیابی پر اسے مبارک باد دیتے ہوئے بھی لہجے سے خوش اور پرجوش ظاہر ہونا ضروری ہے۔ لہجے آپکی شخصیت کا پتہ دیتے ہیں ۔بعض اوقات حالات لہجوں کو بدل دیتے ہیں ۔اور بعض اوقات لہجے حالات بدلتے ہیں ، لہجے اپنے اندر جادو رکھتے ہیں۔ اپنے لہجے سےکسی کو بھی اپنا گرویدہ بنایا جا سکتا ہے اور کسی کے دل میں آرام سے نفرت پیدا کر سکتے ہیں ۔
شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات
٭   ایک ہی موضوع پر گفتگو نہ کریں، ایک ہی موضوع پر بولنے سے بھلے آپ کو خوشی ملتی ہو لیکن یہ سننے والے کے لئے کسی عذاب سے کم نہیں، اپنی گفتگو میں وسعت لائیں۔
٭   سننے والے کا مزاج دیکھیں، جیسے ہم کوئی بھی کام ہر وقت نہیں کر سکتے ایسے ہی ہر وقت سننا بھی ممکن نہیں ہے۔
٭  سننے والے کو ذہنی طور پر تیار کریں،اگر بات انتہائی اہم ہو توپیشگی وقت لیے لیں، اس سے اگلے بندے کے ذہن میں آپ کی بات کے مطلق سوچنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے ۔
٭   دورانِ گفتگواپنے اور سننے والے کےبیچ مناسب فاصلہ رکھیں اور غیر ضروری ٹچنگ سےاجتناب کریں، نہ سننے والے کے اتنے پاس کھڑے ہوں کے اس کو سانس لینا بھی مشکل ہو جائے اور نہ ہی اتنا دور کہ عجیب محسوس ہو۔
٭   ہر وقت اپنے مسائل کا رونا نہ روئیں، مسائل پر بات کرنا ضروری ہے دوسروں سے مشورہ لینا بھی ضروری ہے لیکن ہر وقت مسائل پر بات کرنا کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔
٭   تنقید برائے تنقید سے اجتناب کریں، ہر بات پر تنقید کرنے والےشخص کو کوئی بھی پسند نہیں کرتا اس لیے اس کی بات کو بھی کوئی نہیں سنتا۔
٭   لوگ اس شخص کی بات سنتے ہیں جو ان کی بات سنتا ہے،  اس لیے اپنی گفتگو کو موثر بنانے کے لیے دوسرے شخص کی بات کو باغور سنیں اور پھر اپنی بات کریں۔
٭  گفتگو میں کسی خاص جملے کی تکرار پیار و محبت میں بھلی لگتی ہے ،لیکن اگر روز مرّہ کی باتوں میں کسی جملے کی بار بار تکرار ہوتی رہے تو سننے والا بات پر توجہ نہیں دیتا کہ کون سنے بک بک ۔
بولنا اگر چاندی ہے تو خاموشی سونا۔

دلکش لہجہ اور میٹھی گفتگو ہی سب کچھ نہیں ، بات کرنے کے سارے سلیقے بھی ساتھ ہوں تو بات بنے ، ورنہ خاموشی بہتر ہوتی ہے اسے ہزاروں الفاظ کے بولنے سے جوبغیر سوچے سمجھے بولے جائیں۔

کہا جاتا ہے کہ بے وقوف آدمی جب تک خاموش رہتا ہے اس کا شمار عقلمندوں میں ہوتا ہے ۔ 

 خاموشی بذات خود ایک زبان ہے ۔ انگریزی میں ایک کہاوت ہے کہ
. " Speech is silver but silence is gold "

" بولنا اگر چاندی ہے تو خاموشی سونا "۔

بولنا اگر چاندی ہے تو خاموشی سونا۔

حیرت سے سارے لفظ اسے دیکھتے رہے

باتوں میں اپنی بات کو کیسا بدل گیا

HOME

Comments

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Popular posts from this blog

Mint and Cucumber detox water

Watermelon a symbol of Summer

Unique secret of a Healthy Life from Basil Seeds

سلام کو عام کرو

موت کے سوا ہر مرض کا علاج

Repentance, The act of seeking forgiveness

آپ بچوں کے ماں باپ ہیں، بچے آپکے نہیں

مٹی کا گھروندا یا جنت کا محل

Beautiful Heart Touching Islamic Historical Story in Urdu