Repentance, The act of seeking forgiveness


http://www.syedlatifshah.ga/2017/11/repentance-act-of-seeking-forgiveness.html
تین آدمی حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے پاس آئے۔ایک نے بارش کی قلت کی شکایت کی کافی عرصہ سے بارش نہیں ہوئی۔
آپ نے فرمایا؛

"کثرت سےتوبہ واستغفار کرو"

دوسرے نے کہا؛میرے ہاں اولاد نہیں ہو تی،میں اولاد کا خواہشمند ہوں۔
فرمایا؛"کثرت سےتوبہ واستغفار کرو"
تیسرے شخص نے شکوہ کیا؛زمین میں قعط پڑگیا،غلہ پیدا نہیں ہوتا،یابہت کم ہوتا ہے۔اس سے بھی فرمایا؛"کثرت سےتوبہ واستغفار کرو"
آپ کے پاس جو لوگ بیٹھےتھے،عرض گزار ہوئے؛نواسہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم تینوں افراد مختلف شکایات لے کے آئے،مگر آپ نے ایک ہی جواب دیا؟
فرمایا؛تم نے اﷲتعالی کا فرمان نہیں پڑھاہے؟ اللہ تعالی نے نوح علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
﴿فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا (10) يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا (11) وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَلْ لَكُمْ أَنْهَارًا
(نوح علیہ السلام نے کہا): تم اپنے رب سے بخشش مانگو، بیشک وہ بخشنے والا ہے (10) وہ آسمان سے تم پر موسلا دھار بارش نازل فرمائے گا (11)اور تمہاری دولت کیساتھ اولاد سے بھی مدد کریگا، اور تمہارے لیے باغات و نہریں بنا دے گا۔(نوح : 10– 12)
استغفار سے وہی شخص غافل ہوتا ہے جو استغفار کے فوائد و برکات سے نابلد ہو، حالانکہ قرآن و سنت استغفار کے فضائل سے بھر پور ہیں، حضرت صالح علیہ السلام کے بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے:
﴿  قَالَ يَا قَوْمِ لِمَ تَسْتَعْجِلُونَ بِالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ لَوْلَا تَسْتَغْفِرُونَ الله لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
(صالح علیہ السلام نے کہا): ''میری قوم کے لوگو! تم بھلائی سے پیشتر برائی کو کیوں جلدی طلب کرتے ہو؟ تم اللہ سے بخشش کیوں نہیں طلب کرتے تاکہ تم پر رحم کیا جائے(النمل : 46)
اور حضرت ہود علیہ السلام کے بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے:
﴿  وَيَا قَوْمِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا وَيَزِدْكُمْ قُوَّةً إِلَى قُوَّتِكُمْ وَلَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِينَ
میری قوم ! تم اپنے رب سے بخشش مانگو اور اسی کی طرف رجوع کرو، وہ تم پر موسلا دھار بارش نازل کریگا اور تمہاری موجودہ قوت میں اضافہ فرمائے گا، اس لیے تم مجرم بن کر رو گردانی مت کرو۔(هود : 52)
توبہ ہے کیا ؟
 توبہ کے لغوی معنی افسوس ،ندامت ،پشیمانی اور پچھتاوے کے ہیں،اصطلاح میں کسی برے کام سے باز رہنے کا عہد کرنے کا نام توبہ ہے۔ دراصل تین چیزوں کے مجموعہ کا نام توبہ ہے، ایک یہ کہ جو گناہ سر زد ہو جائے اس پر دل سے ندامت وشرمندگی اور پشیمانی ہو ، دوسرے یہ کہ زبان سے استغفار کرے جو گناہ ہو اس کو فوراً چھوڑ دے، تیسرے یہ کہ آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم مصمم ( پکا ارادہ) ہو ، جو گناہ بندوں کے حقوق کے بارے میں کئے ہیں ،ان سے معاف کرائے اور انھیں راضی کرے،اور اگر وہ مر گئے ہوں تو ان کی طرف سے صدقہ کرے اور ان کی مغفرت کی دعا کرتا رہے۔ ان ہی تین چیزوں کے مکمل ہونے پر توبہ تکمیل تک پہنچتی ہے اور جن گناہوں سے آدمی توبہ کرتا ہے وہ بھی تین قسم کے ہیں۔
اول اللہ کے فرض کردہ احکام مثلاً نماز ،روزہ اور زکوۃ وغیرہ ادا نہ کئے ہوں تو توبہ کیساتھ ان احکامات کی حتی الامکان قضاء بھی لازمی ہے۔
دوسرے گناہ مثلاًشراب نوشی ،رقص وسرور ،گانا بجانا ،قمار اور سود وغیرہ ایسے گناہوں کی معافی کی صورت یہ ہے کہ پہلے تو ان کو فوراً چھوڑ دیا جائے ، پھر اللہ جل شانہ سے معافی مانگ کر ان گناہوں کو آئندہ نہ کرنے کا پختہ عزم کیا جائے ۔
تیسری قسم کے گناہ بندوں کے حقوق کے متعلق ہیں ،سب سے زیادہ سنگین یہی ہے ،مثلاً کسی کو قتل کردیا ہو،کسی پر بہتان لگایا ہو ،جھوٹی گواہی دی ہو ،توان گناہوں کا جن سے تعلق ہے،اس کو کسی نہ کسی صورت میں راضی کرنا بہت ضرروری ہے ،اگر ایسا نہ کر سکے تو بجز اس کے کوئی صورت نہیں کہ اللہ جل شانہ سے ہی معافی طلب کرے ۔
قرآن وحدیث میں توبہ کرنے والوں کے لیے خوش خبری اور بشارت دی گئی ہے اور الله توبہ کرنے والوں کو پسندیدگی اور محبوبیت کی نظر سے دیکھتے ہیں ، الله تعالیٰ کا ارشاد ہے
بے شک الله کو پسند آتے ہیں توبہ کرنے والے اور پسند آتے ہیں گندگی سے بچنے والے۔“ (بقرہ:222)۔
امام غزالی نے احیا ء العلوم میں لکھا ہے کہ گناہوں پر اقدام کے تین درجے ہیں ۔
1۔کسی گناہ کا کبھی ارتکاب ہی نہ ہو ۔تو یہ فرشتوں کا درجہ ہے ،یا انبیاء کی خصوصیت ہے کی خدا نے ان کو معصوم پیدا کیا ہے۔
2۔ آدمی گناہوں کا ارتکاب کرے اور گناہو ں کو گناہ نہ سمجھے ،نہ ندامت محسوس کرے اور نہ ان کو چھوڑنے کا ارادہ رکھے ،یہ درجہ شیطان صفت انسانوں کا ہے ،کہ جس شیطان نے اللہ کی نافرمانی کرکے کبھی ندامت محسوس نہیں کی ،اور توبہ نہ کی۔
3۔تیسرا درجہ عقلمند اور نیک لوگوں کا ہے کہ اگر کوئی گنا ہ سر زد ہو گیا تو فوراً اس پر نادم ہو کر توبہ کرتے ہیں ،اور آئندہ نہ کرنے کا پختہ عزم کر لیتے ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم سب خطا کار ہو اور سب سے اچھے خطاکار وہ ہیں جواپنی خطا سے توبہ کر لیتے ہیں ۔ایک اور حدیث میں توبہ کرنیوالوں کو یہ بشارت دی گئی ہے کہ اپنے گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہو جاتا ہے کہ جیسے کبھی اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو ۔
کثرت سے توبہ واستغفار پوری امت کی مشکل کشائی اور حاجت روائی کیلئے معاون ہے، اور آئندہ ممکنہ خطرات سے بچاؤ کا باعث بھی ہے، کیونکہ کوئی بھی مصیبت گناہوں کی وجہ سے نازل ہوتی ہے اور توبہ و استغفار سے ان کا خاتمہ ممکن ہے ، توبہ واستغفار نیک لوگوں کی عادت ، متقی لوگوں کا عمل اور مؤمنوں کا اوڑھنا بچھونا ہے، نیز اللہ تعالی نے تمام لوگوں کیلئے نمونہ و قدوہ بننے والے انبیاء علیہم الصلاۃ و السلام کے بارے میں فرمایا:
﴿ إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا وَكَانُوا لَنَا خَاشِعين  ﴾
بیشک وہ نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے، اور وہ ہمیں امید اور خوف کیساتھ پکارتے اور ہم سے خوب ڈرتے تھے۔ (الأنبياء : 90)
 استغفار سے مراد اللّهُمَّ إغفِرلي یا خدایا مجھے بخش دے کہنا اور دہرانا، نہیں ہے، بلکہ استغفار کی روح، حق تعالی کی طرف پلٹنا اور ماضی کے نادرست اعمال سے ندامت اور ماضی کی تلافی کے لئے آمادگی سے عبارت ہے۔ استغفار، کے معنی، اللہ تعالی سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں۔ مغفرت طلب کرنے کا عمل بعض خاص افراد تک محدود نہیں ہے بلکہ انبیاء و المرسلین علیہم الصلاۃ و السلام بھی اللہ سے مغفرت طلب کرتے تھے؛ حتی کہ نبی ﷺ کو اللہ کی طرف سے ہدایت ہوتی ہے کہ اپنے لئے بھی اور مؤمنین کے لئے بھی استغفار کریں اور واسطے اور شفیع کا کردار ادا کریں تا کہ خداوند متعال اپنی رحمت ان پر نازل فرمائے۔
قرآن میں مغفرت طلبی کا مفہوم، کئی بار کئی ہیئتوں اور سانچوں میں بروئے کار لایا گیا ہے۔ استغفار کسی خاص وقت اور مقام تک محدود نہیں ہے بلکہ زیادہ تر مواقع اور مقامات پر اللہ کی جانب سے شرف قبولیت حاصل کرتا ہے، بایں حال، قرآن اور احادیث میں بعض اوقات، مقامات اور حالات و کیفیات بیان ہوئی ہیں، جہاں اس کی استجابت اور قبولیت کے اسباب فراہم ہوتے ہیں۔اللہ تعالی نے بشریت کے والدین (ان دونوں پر اللہ کی طرف سے سلامتی، رحمتیں، اور برکتیں نازل ہوں)کے بارے میں فرمایا:
﴿ قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِين  ﴾
"حوا اور آدم "دونوں نے کہا: ہمارے پروردگار! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم ڈھایا، اگر تو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔ (الأعراف : 23)
اللہ تعالی نے حضرت داؤد علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
﴿ وَظَنَّ دَاوُودُ أَنَّمَا فَتَنَّاهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ  ﴾
داؤد علیہ السلام سمجھ گئے کہ ہم نے انہیں آزمایا ہے، تو پھر اپنے رب سے استغفار کرنے لگے اور عاجزی کرتے ہوئے گر پڑے اور پوری طرح رجوع کیا ۔(ص : 24)
اور آپ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ کثرت سے استغفار کیا کرتے تھے، حالانکہ اللہ تعالی نے آپ کی گزشتہ و پیوستہ تمام لغزشیں معاف فرما دی ہیں ، چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ :"ہم رسول اللہ ﷺ کی ایک ہی مجلس میں سو سے زیادہ مرتبہ استغفار کے یہ الفاظ شمار کر لیتے تھے:
" رَبِّ اغْفِرْ لِي وَتُبْ عَلَيَّ إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ "
میرے پروردگار! مجھے بخش دے، اور میری توبہ قبول فرما، بیشک تو توبہ قبول کرنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔(ابو داود، ترمذی اور اسے حسن صحیح قرار دیا ہے)۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ: رسول اللہ ﷺ وفات سے پہلے اکثر اوقات یہ فرمایا کرتے تھے:
" سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ ، أَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوْبُ إِلَيْهِ "
اللہ اپنی حمد کیساتھ پاک ہے، میں اللہ سے مغفرت کا طالب ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔(بخاری و مسلم)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ : میں نے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ کسی کو
" أَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوْبُ إِلَيْهِ " میں اللہ سے مغفرت کا طالب ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں"
کہتے ہوئے نہیں سنا۔ (نسائی)

نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ:" اس امت میں شرک چیونٹی کے رینگنے سے بھی زیادہ مخفی انداز میں سرایت کریگا "
تو اس پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے استفسار کیا: "اس سے خلاصی کا کیا ذریعہ ہے؟"
 رسول اللہ ﷺ نے انہیں دعا سکھائی:
" اَللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أُشْرِكَ بِكَ شيئا وَأَنَا أَعْلَمُ ، وَأَسْتَغْفِرُكَ مِنَ الذَّنْبِ الَّذِيْ لَا أَعْلَمُ "
یا اللہ! میں جان بوجھ کر تیرے ساتھ کسی کو شریک بنانے سے تیری پناہ چاہتا ہوں، اور ان گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں جو میرے علم میں نہیں ہیں۔(ابن حبان نے اسے ابو بکر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، جبکہ امام احمد نے ابو موسی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے)۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ عام طور پر دعا میں کہا کرتے تھے:
" اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ذَنْبِي كُلَّهُ، دِقَّهُ وَجِلَّهُ، خَطَأَهُ وَعَمْدَهُ، سِرَّهُ وَعَلانِيَتَهُ ، أَوَّلَهُ وَآخِرَهُ "
یا اللہ! میرے چھوٹے برے، عمداً اور خطاءً، خفیہ ، اعلانیہ، ابتدا سے انتہا تک سب گناہ بخش دے۔( مسلم ، ابو داود)
گناہوں کی بخشش کیلئے انسان کی طرف سے کی جانے والی دعا اخلاص، اصرار، گڑگڑانے، اور اللہ کے سامنے عاجزی و انکساری کے اظہار پر مشتمل ہوتی ہے، نیز اس میں گناہوں سے توبہ بھی شامل ہے، اور اللہ تعالی سے توبہ مانگنا بھی استغفار ہی کی ایک شکل ہے، چنانچہ یہ تمام امور استغفار اور توبہ کے ضمن میں آتے ہیں، لہذا مذکورہ الفاظ الگ الگ ذکر ہوں تو تمام معانی ان میں یکجا ہوتے ہیں، اور جب یہ الفاظ سب یکجا ہوں تو استغفار کا مطلب یہ ہو گا کہ: گناہوں اور ان کے اثرات کے خاتمے، ماضی میں کیے ہوئے گناہوں کے شر سے تحفظ اور گناہوں پر پردہ پوشی طلب کی جائے۔
اللہ تعالی نے توبہ اور استغفار کو اپنے اس فرمان میں یکجا بیان فرمایا:
﴿ وَأَنِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُمَتِّعْكُمْ مَتَاعًا حَسَنًا إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ كَبِيرٍ ﴾
اپنے رب سے مغفرت مانگو پھر اس کی طرف پلٹ آؤ تو وہ تمھیں ایک معین مدت تک اچھا فائدہ دے گا اور ہر فضل والے کو اس کا فضل دے گا اور اگر تم پھر گئے تو یقیناً میں تمھیں بڑے دن کے عذاب سے ڈراتا ہوں (هود : 3)
نبی ﷺ سے استغفار کے بارے میں متعدد الفاظ اور اذکار ثابت ہیں، انہیں اپنانے سے بہت ہی عظیم ثواب ملے گا،  استغفار کرنے کے سب سے افضل ترین الفاظ میں سب سے پہلے سید الاستغفار کے الفاظ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی ان الفاظ کو "سید الاستغفار" سے موسوم فرمایا ہے، چنانچہ صحیح بخاری: (6306) میں شداد بن اوس رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
سید الاستغفار یہ ہے کہ تم کہو: 
"اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لَا إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ، خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ، وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ، وَأَبُوءُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي فَإِنَّهُ لاَ يَغْفِرُ الذُّنوبَ إِلاَّ أَنْتَ "
"  یا اللہ تو ہی میرا رب ہے، تیرے سوا میرا کوئی معبود نہیں، تو نے مجھے پیدا کیا ہے، اور میں تیرا بندہ ہوں، میں اپنی طاقت کے مطابق تیرے عہد و پیمان پر قائم ہوں، میں اپنے کیے ہوئے اعمال کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں، میں تیرے حضور تیری مجھ پر ہونیوالی نعمتوں کا اقرار کرتا ہوں، ایسے ہی اپنے گناہوں کا بھی اعتراف کرتا ہوں، لہذا مجھے بخش دے، کیونکہ تیرے سوا کوئی بھی گناہوں کو بخشنے والا نہیں ہے۔"

 آپ نے فرمایا: جس شخص نے کامل یقین کے ساتھ دن کے وقت اسے پڑھا، اور اسی دن شام ہونے سے پہلے اسکی موت ہوگئی ، تو وہ اہل جنت میں سے ہوگا، اور جس شخص نے اسے رات کے وقت کامل یقین کے ساتھ اسے پڑھا اور صبح ہونے سے قبل ہی فوت ہو گیا تو وہ بھی جنت میں جائے گا) بخاری
ایک مرتبہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، جس طرح پانی لگنے سے لو ہازنگ آلود ہو جاتا ہے اسی طرح ( گناہ سرزد ہونے سے) دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے ، صحابہ کرام رضی الله عنہم نے عرض کیا الله کے رسول (صلی الله علیہ وسلم)! اس زنگ کو دور کرنے کا کیا طریقہ ہے؟
 آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، موت کو کثرت سے یا د کرنا اور قرآن مجید کی تلاوت کرنا۔
گناہ ایک سنگین ومہلک ترین روحانی مرض ہے، الله کی نافرمانی اورگناہ وہ مضر شے ہے جس سے انسان کے قلب میں زنگ لگ جاتا ہے اورقلب سیاہ ہو جاتا ہے، لیکن اس کا بہترین علاج اور تریاق توبہ ہے۔
ارشاد نبوی صلی الله علیہ وسلم کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی شخص الله تعالیٰ کی نافرمانی او رگناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو سب سے پہلے اس گناہ کا اثر اس کے دل پر پڑتا ہے، جو سیاہ دھبہ کی شکل میں نمایاں ہوتا ہے، یہ گویا کردار کے زنگ آلود ہونے کی ابتدائی علامت ہے ، اگر ابتدائی مرحلہ میں انسان اپنی اخلاقی بیماری پر آگاہ ومتنبہ ہو کر گناہ اورمعصیت کو چھوڑ کر، توبہ واستغفار کرے تو الله تعالیٰ اس سیاہ دھبہ کو زائل فرما دیتا ہے ، لیکن اگر اس نے اس کی فکر نہ کی اور توبہ واستغفار کا دامن نہیں تھا ما تو انسان گناہوں کے سمندر میں ڈوبتا چلا جاتا ہے اور اس سے نکلنا بہت دشوار ہو جاتا ہے ، دراصل جو دل خوف الہٰی سے معمور ہو جاتا ہے وہ انسان کے لیے دنیا وآخرت میں فلاح ونجات کی راہیں ہموار کرتا ہے۔
ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے ، جسم انسانی میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے، اگر وہ درست رہے تو پورا جسم درست رہتا ہے ، لیکن اگر وہ خراب ہو جاتا ہے تو پورا جسم خراب ہو جاتا ہے ، لوگو! یادرکھو، گوشت کا یہ لوتھڑا دل ہے۔
انسان کے کردار کو بنانے او ربگاڑنے میں اس کے دل کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے ، اگر دل پاک وصاف اور خوف الہٰی سے معمور ہے تو کردار بھلائیوں کا علم بردار بنتا ہے اوراگر دل خوف الہٰی سے خالی اور تقویٰ وپرہیز گاری سے عاری ہو تو کردار داغ دار ہو جاتا ہے، معلوم ہوا کہ دل انسان کا کردار بنانے اور بگاڑنے میں بڑا موثر کردار ادا کرتا ہے۔ بحیثیت مسلمان مومن بندوں کو کثرت توبہ واستغفار کے ذریعہ اپنے دلوں سے معصیت کے زنگ کو زائل کرتے رہنا چاہیے اور احتساب کی کیفیت کے ساتھ اخلاق وکردار کا برابر اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہیے، تاکہ وہ دنیا وآخرت کی فلاح وکام یابی سے ہم کنار ہو سکیں، کیوں کہ توبہ کا دروازہ ابھی کھلا ہوا ہے، انسان اپنی گناہوں سے جتنی جلد ہو سکے توبہ کر لے ،اتنا ہی اس کے لئے بہتر ہے ،کیونکہ موت کا کوئی بھروسہ نہیں ،نہ جانے کس وقت آکر دبوچ لے ،جب موت کا فرشتہ نظر آگیا تو اس وقت کی توبہ قبول نہیں اس بات کی خبر خود اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ہے
’’کہ ان لوگوں کی توبہ قبو ل نہیں ہوگی جوبرے عمل کرتے رہے ،یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی ایک کے سا منے موت آکھڑی ہوئی ہو ،تو وہ کہنے لگے کہ میں توبہ کرتا ہوں ‘‘(سورہ النساء)
سورہ عافر میں بھی اس بات کو دہرایا گیا ہے :
" بھر جب انھوں نے ہمارا عذاب دیکھا تو کہنے لگے کہ ہم اللہ وحدہ پر ایمان لائے ‘‘ (سورہ عافر)
اسی طرح جب قیامت کی نشا نی ظاہر ہو ،یعنی سورج بجائے مشرق سے نکلنے کے مغرب سے نکلے تو اس وقت کی بھی توبہ قبول نہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ انسان خطا ونسیان کا پتلا ہے، غلطی اور گناہ کرنا اس کی جبلت میں داخل ہے، مگر بہترین گناہ گار وہ ہے جو اپنے گناہوں پر ندامت کے ساتھ آنسو بہائے اور اپنے کیے پر الله تعالیٰ سے رجوع کرے ، معافی مانگے اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم کرے۔
فرمانِ باری تعالی ہے:
﴿  فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ أَيْنَ مَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ الله جَمِيعًا إِنَّ الله عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴾
نیکیوں کی طرف بڑھ چڑھ کر حصہ لو، تم جہاں بھی ہو گے اللہ تعالی تم سب کو اکٹھا کر لے گا، بیشک اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرة : 148)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ جب کوئی بندہ گناہ کرتا ہے پھر اللہ جل شانہ سے توبہ کرتا ہے ،اپنی توبہ کو نبھاتا ہے ،اللہ پاک اس کی ادا کی ہو ئی تمام نیکیا ں قبو ل کر لیتا ہے ،اور اس کے کئے ہوئے گناہ معاف کر دیتا ہے ،ہر نیکی کے بدلے میں اللہ جل شانہ جنت میں ایک محل عطا فرماتا ہے اور حور عین میں سے ایک حور کے ساتھ اسکا نکا ح کر دیتا ہے۔
توبہ کرنے والو کیلئے تین انعامات:۔ حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ توبہ کرنے والے جب اپنی قبروں سے نکلیں گے تو ان کے سامنے کستوری کی خوشبو پھوٹے گی ،یہ جنت کے دسترخوان پر آکر اس سے تناول کریں گے ،عرش کے سایہ میں رہیں گے ،جب کہ بہت سے لوگ حساب و کتا ب کی سختی میں ہوں گے ۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (جس شخص نے استغفار کو اپنی عادت بنا لیا، تو اللہ تعالی اس کیلئے ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ اور تمام غموں سے کشادگی عطا فرمائے گا، نیز اسے ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہیں تھا) ابو داود
اسی طرح استغفار کرنے سے انسان کے تمام چھوٹے بڑے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں جن کو انسان شمار بھی نہیں کر سکتا، چاہے اسے اپنے گناہ یاد ہوں یا نہ یاد ہوں، کیونکہ انسان بہت سے گناہ کر کے بھول جاتا ہے، لیکن اللہ تعالی کو بندے کے سب گناہ یاد رہتے ہیں، اور انہی کی بنیاد پر بندے کا محاسبہ بھی ہوگا، چنانچہ ابو موسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "نبی ﷺ عام طور پر دعا مانگا کرتے تھے:
" اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي خَطِيئَتِي ، وَجَهْلِي وَإِسْرَافِي فِي أَمْرِيْ ، وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي ، اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي جِدِّيْ وَهَزْلِي، وخَطَئِيْ، وَعَمْدِي وَكُلُّ ذَلِكَ عِنْدِي ، اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ ، وَمَا أَخَّرْتُ ، وَمَا أَسْرَرْتُ ، وَمَا أَعْلَنْتُ ، وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّيْ، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ ، وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ ، وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ " میرے پروردگار! میرے گناہ، اپنے بارے میں جہالت و زیادتی سمیت ان تمام گناہوں کو بھی بخش دے جنہیں تو مجھ سے بھی زیادہ جانتا ہے، یا اللہ! میرے سنجیدہ و غیر سنجیدہ ، سمجھ و نہ سمجھ والے سب گناہ بھی بخش دے، میرے گناہوں میں یہ سب اقسام موجود ہیں، یا اللہ! میرے گزشتہ، پیوستہ، خفیہ، اعلانیہ، اور جنہیں تو مجھے سے بھی زیادہ جانتا ہے سب گناہ معاف فرما دے، تو ہی آگے بڑھانے اور پیچھے کرنے والا ہے، اور تو ہر چیز پر قادر ہے۔(بخاری و مسلم)
چنانچہ اگر کوئی شخص اللہ تعالی سے اپنے تمام گناہ جنہیں جانتا ہے یا نہیں جانتا سب کی بخشش مانگے تو اسے بہت بڑی بات کی توفیق مل گئی ہے۔ اسی طرح ہر مسلمان تمام مؤمن و مسلم مرد و خواتین، زندہ و فوت شدہ سب کیلئے بخشش طلب کرے، کیونکہ یہ عمل نیکی، مسلمانوں سے محبت اور دلی صفائی کا باعث ہوگا، نیز اللہ کے ہاں ان کیلئے شفاعت کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے،
فرمانِ باری تعالی ہے:
﴿ وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ ﴾
جو ان کے بعد آئے وہ کہتے ہیں: اے ہمارے رب ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو معاف فرما دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے بارے میں بُغض نہ رہنے دے ، اے ہمارے رب تو بڑا نرمی کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے (الحشر : 10)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ : "میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا، آپ فرما رہے تھے: (اللہ تعالی فرماتا ہے: ابن آدم! اگر تیرے گناہ آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگیں، اور پھر تم مجھ سے مغفرت مانگو تو میں تمہیں بخش دونگا، مجھے [تمہارے گناہوں کی] کوئی پرواہ نہیں ہوگی) ترمذی نے اسے روایت کیا ہے اور اسے حسن قرار دیا۔
 چنانچہ استغفار خیر و بھلائی کا دروازہ اور تکالیف و مصائب ٹالنے کا باعث ہے، پوری امت کو بحیثیت کل دائمی طور پر استغفار کرنے کی ضرورت ہے، تا کہ پوری امت پر نازل شدہ آفات اور تکالیف ٹل جائیں، آنے والی مصیبتوں اور شیطان کے شّر  سے تحفظ حاصل ہو۔جس وقت شیطان لعنت خدا کا مستحق قرار دیا گیا تو اس نے خداوندعالم سے روز قیامت تک کی مہلت مانگی، اللہ نے فرمایا: ٹھیک ہے مگر یہ مہلت لے کر تو کیا کرے گا؟
جواب دیا: پروردگارا! میں آخری وقت تک تیرے بندوں سے دور نھیں ہوں گا، یہاں تک کہ اس کی روح پرواز کرجائے، آواز آئی: مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم ، میں بھی اپنے بندوں کے لئے آخری وقت تک درِ توبہ کو بند نہیں کروں گا۔( روح البیان: ۲،ص ۱۸۱)
اللہ تعالی نے فضل و کرم اور جود و سخا کرتے ہوئے ہمارے لیے نیکی اور عبادات کے بہت سے دروازے کھول رکھے ہیں، مقصد صرف یہ ہے کہ مسلمان نیکی کے کسی بھی دروازے سے داخل ہو کر اطاعت گزار بنے ؛ اس کے بدلے میں اللہ تعالی دنیا و آخرت سنوار کر درجات بلند فرما دے، چنانچہ اللہ تعالی اسے دنیا میں سکھ و سعادت والی زندگی بخشے گا، اور مرنے کے بعد دائمی نعمتیں اور رضائے الہی حاصل کریگا، اس لیے اپنے رب سے مغفرت طلب کرو تو تم اس کے فضل و کرم، جود و سخا، اور برکتوں کا مشاہدہ کر لو گے، تمہارے گناہ مٹا اور درجات بلند کر دیے جائیں گے۔
اللہ تعالی انتہائی وسیع مغفرت اور جود و سخا کا مالک ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿ وَمَنْ يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ االله يَجِدِ الله غَفُورًا رَحِيمًا ﴾
اور جو شخص گناہ کر لے یا اپنی جان پر ظلم کر بیٹھے پھر اللہ تعالی سے گناہ کی بخشش چاہے تو وہ اللہ تعالی کو بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا پائے گا۔(النساء : 110)
http://www.syedlatifshah.ga/2017/11/repentance-act-of-seeking-forgiveness.html

اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن کریم کو خیر و برکت والا بنائے،
مجھے اور آپ سب کو اسکی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے،
اور ہمیں سید المرسلین ﷺ کی سیرت و ٹھوس احکامات پر چلنے کی توفیق دے،


آمین۔

HOME

Comments

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

More post for you might like it

Watermelon a symbol of Summer

Mint and Cucumber detox water

Unique secret of a Healthy Life from Basil Seeds

Break The Silence

مٹی کا گھروندا یا جنت کا محل

Unlocking Cardamom's Secret to a Healthy Life

سلام کو عام کرو

Mango is a true symbol of the season.