سلام کو عام کرو

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ

"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،
خَلَقَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ، طُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا، فَلَمَّا خَلَقَهُ قَالَ: اذْهَبْ فَسَلِّمْ عَلَى أُولَئِكَ النَّفَرِ، وَهُمْ نَفَرٌ مِنَ الْمَلَائِكَةِ جُلُوسٌ، فَاسْتَمِعْ مَا يُجِيبُونَكَ، فَإِنَّهَا تَحِيَّتُكَ وَتَحِيَّةُ ذُرِّيَّتِكَ، قَالَ: فَذَهَبَ فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، فَقَالُوا: السَّلَامُ عَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللهِ "
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو ایسی صورت میں پیدا کیا کہ ان کا قد ساٹھ ہاتھ (یعنی تقریبا 30 گز تھا) جب ان کا جسم مکمل ہوا تو خدا تعالیٰ نے فرمایا، جاؤ اور ان بیٹھے ہوئے فرشتوں پر سلام کہو اور ان کا سلام سنو جو وہ کہیں گے، تیرا اور تیری اولاد کا یہی سلام ہوگا، پھر آدم علیہ السلام نے "السلام علیکم" کہا، فرشتوں نے "السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہا۔"(صحيح بخارى، كتاب الاستئذان)

فرمانِ باری تعالی ہے:
﴿ وَإِذَا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ حَسِيبًا
ترجمہ: جب تمہیں سلام کہا جائے تو تم اس سے اچھا سلام جواب میں کہو، یا وہی الفاظ لوٹا دو، بیشک اللہ تعالی ہر چیز کا حساب رکھنے والا ہے۔(النساء :86)
مثلا جب آدمی کسی کو "السلام علیکم"کہے، اس کے لیے بہترین جواب "وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ و مغفرتہ " ہے یا صرف "وعلیکم السلام" پر بھی کفایت کی جا سکتی ہے۔ اور یہی مفہوم قرآن مجید کی اس آیت کا ہے۔
"السلام علیکم" کا معنی یہ ہے کہ آپ پر سلامتی ہو، السلام علیکم کا ایک اور بھی معنی ہے کہ آپ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہوں، سلام کا مترادف سلامتہ ہے اور بعض نے سلامتہ کی جمع سلام بتائی ہے ، سلام تسلیم کا اسم ہے اور شریعت کی اصطلاح میں اس سے مراد دو یا دو سے زیاده مسلمانوں کی آپس میں ملاقات کے وقت کی دعا یعنی السلام علیکم کہنا ہے،  اگر مخاطب ایک ہو تو السلام علیک بھی کہا جا سکتا ہے۔ سلام کا جواب دینا واجب ہے ،سلام کا جواب اس سے بہتر اور عمدهٔ طریقے سے دینا مستحب ہے جواب کے لیے وعلیکم السلام کے الفاظ ہیں۔ سلام کرنے والا اور جواب دینے والا دونوں و رحمتہ اللہ و برکاتہ و مغفرتہ کے کلمات کا اضافہ بھی کر سکتے ہیں.۔ ہر واقف و ناواقف مسلمان کو سلام کہنا سنت ہے۔ قيامت كي نشانی يہ ہے کہ صرف جان پہچان والوں کو سلام کیا جاے گا. مجلس میں کسی شخص کو مخاطب کرکے سلام نہ کہا جائے، جب چند لوگ کسی جگہ موجود ہوں اور باہر سے آکر کوئی شخص سلام کرے، ان لوگوں میں اگر کچھ آدمی اس کے سلام کا جواب دے دیں تو جواب کا حق ادا ہوجاتا ہے، اس کے علاوہ عام حالات میں اگر ایک جماعت یا گروپ میں سے ایک آدمی بھی سلام کہہ دے تو سب کی طرف سے کافی ہے کیونکہ اس عام سلام کا حکم علماء کے نزدیک سنت ہے لیکن اگر سب کے سب سلام کہنا چاہیں تو بھی اس میں کوئی قباحت نہیں بلکہ یہ صورت بہتر ہے اسی طرح ایک جماعت پر سلام کہا جائے تو ایک آدمی کا جواب سب کی طرف سے کفایت کرتا ہے اور اگر اکیلا آدمی ہو تو اس پر سلام لوٹانا واجب ہے۔ بعض علماء کے نزدیک سب پر جواب دینا واجب ہے۔ اس لئے جب کوئی مجلس میں بیٹھنے لگے  یا اٹھنے لگے تو سلام کہہ دے تو بھی سلام کا جواب ضرور دینا چاہئے۔
"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،
" إِذَا انْتَهَى أَحَدُكُمْ إِلَى الْمَجْلِسِ، فَلْيُسَلِّمْ فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَقُومَ، فَلْيُسَلِّمْ فَلَيْسَتِ الْأُولَى بِأَحَقَّ مِنَ الْآخِرَةِ "
"جب کوئی مجلس میں بیٹھنے لگے تو سلام کہہ دے اور جب کوئی اٹھنے لگے تو بھی سلام کہہ دے کیونکہ دونوں کی حیثیت مستقل ہے۔" (ابوداؤد، باب استئذان)
امت مسلمہ کی باہمی محبت اورالفت کا ذریعہ شریعت اسلامیہ نے یہ قرار دیا ہے کہ جب کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی سے ملے تو اس کو "السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ" کہے۔
حدیث کامفہوم ہے : " السلام علیکم کہنے سے 10 نیکیاں السلام علیکم ورحمتہ اللہ کہنے سے 20، السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ کہنے سے 30  السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ و مغفرتہ کہنے سے 40 نیکیاں ملتی ہیں".(ابوداؤد، حدیث 5100، کتاب الادب، ابواب السلام، باب: سلام کیسےکرنا چاہئیے، راوی: عمران رضی اللہ عنہ)
مسلمان کا باہمی ہدیہ اورتحفہ سلام سے بڑھ کر اور کوئی نہیں، کیونکہ مسلمان کی باہمی محبت و الفت کی پہچان کا واضح ذریعہ سلام ہی ہو سکتا ہے. اور ویسے بھی سلام مسلمان کے مسلمان  پرحقوق میں سے ایک اہم حق ہے
حدیث پاک میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ  حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، "مسلمان کے مسلمان پر چھ حق ہیں:
" حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ سِتٌّ» قِيلَ: مَا هُنَّ يَا رَسُولَ اللهِ؟، قَالَ: «إِذَا لَقِيتَهُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ، وَإِذَا دَعَاكَ فَأَجِبْهُ، وَإِذَا اسْتَنْصَحَكَ فَانْصَحْ لَهُ، وَإِذَا عَطَسَ فَحَمِدَ اللهَ فَسَمِّتْهُ، وَإِذَا مَرِضَ فَعُدْهُ وَإِذَا مَاتَ فَاتَّبِعْهُ "
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا، "وہ کون سے حقوق ہیں؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (1) جب کسی کو ملے تو اسے سلام کہے۔ (2) جب کوئی دعوت دے تو اس کی دعوت کو قبول کرے۔ (3) جب کوئی نصیحت کا خواہش مند ہو تو اس کو نصیحت کرے (4) جب کسی کو چھینک آئے تو "یرحمک اللہ" کہے، بشرطیکہ چھینک مارنے والا الحمدللہ کہے۔ (5) جب کوئی بیمار ہو تو اس کی تیمارداری کرے۔ (6) جب کوئی فوت ہو جائے تو اس کا جنازہ پڑھے۔" (صحيح مسلم مع شرح النووى جلد14- صفحه143)
ایک اور حدیث میں یوں وارد ہوا ہے کہ سلام راستہ کے حقوق میں سے ہے۔
"حضرت ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "
"إيّاكُم والجُلُوسَ بالطُرُقاتِ " قالوا: يا رسُولَ اللهِ: ما بدُّ لنا مِنْ مجالِسِنا نتحدَّثُ فيها،
فقال رسولُ الله -صلى الله عليه وسلم-:" إن أبيتم فاعطُوا الطريقَ حَقَّه"، قالوا: وما حق الطَريقِ يا رسولَ الله -ِ؟ قال: "غضُّ البصَرِ، وكَفُّ الأذى، وردُّ السَّلامِ، والأمرُ بالمعرُوفِ، والنَهيُ عن المُنكر "
راستے میں بیٹھنے سے پرہیز کیا کرو۔" صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے سوال کیا، "اے اللہ کے رسول! ہمیں بیٹھنے کے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں کیونکہ ہم آپس میں باتیں کرتے ہیں؟" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، "اگر تم نے ضرور بیٹھنا ہی ہے تو پھر راستے کا حق ادا کیا کرو۔" صحابہ رضی اللہ عنھم نے پوچھا، "راستے کا کیا حق ہے، اے اللہ کے رسول؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، (1) آنکھوں کو نیچا رکھنا (2) تکلیف دہ چیز کو دور کرنا (3) اور سلام کا جواب لوٹانا (4) اچھی بات کا حکم دینا (5) اور برائی سے روکنا۔
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ سے بہتر کوئی تعبیر نہیں، ملاقات کے لیے اس سے زیادہ جامع دعا اورمانع تعبیر کا تصور نہیں کیا جاسکتا خداوندِ کریم نے اپنی کتابِ مقدس میں بیان فرمایا ہے:
﴿ فَإِذا دَخَلتُم بُيوتًا فَسَلِّموا عَلىٰ أَنفُسِكُم تَحِيَّةً مِن عِندِ اللَّهِ مُبـٰرَ‌كَةً طَيِّبَةً.۔ ﴾
کہ "جب تم گھروں میں داخل ہو تو ایک دوسرے پر سلام کہو جو اللہ کی طرف سے ایک مبارک اور پاکیزہ تحفہ ہے۔" (سورةالنور:61)
اور یہی وہ ہدیہ ہے جو ابراہیم علیہ السلام کے مہمان ان کے لیے لائے تھے، جیسے اللہ تعالیٰ نے سورہ ذاریات میں بیان فرمایا:
﴿ إِذ دَخَلوا عَلَيهِ فَقالوا سَلـٰمًا ۖ قالَ سَلـٰمٌ... ﴾ (سورةالذاريات:65)
اور انہی مبارک کلمات کے ساتھ فرشتے مومنین کا استقبال کریں گے۔ جیسے ارشادِ خداوندی ہے:
﴿ وَقالَ لَهُم خَزَنَتُها سَلـٰمٌ عَلَيكُم طِبتُم فَادخُلوها خـٰلِدينَ ﴾ (سورةالزمر:73)
سلام اسماء الحسنی یعنی اللّه تعالٰی کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام ہے، فرمانِ باری تعالی ہے :
﴿ هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ ۚ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ.. ﴾ (سورةالحشر:23)
اللہ تعالی نے سلام عام کرنے کا حکم دیا ہے اور سلام کا جواب واجب قرار دیا ،  بلکہ سلام کو ایسے امور میں شامل فرمایا جن کی وجہ سے مسلمانوں میں محبت اور الفت پیدا ہو۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک ایمان نہ لے آؤ، اور اس وقت تک ایمان والے نہیں بن سکتے جب تک تم باہمی محبت نہ کرنے لگو، کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتلاؤں جس کے کرنے پر تم محبت کرنے لگو؟ آپس میں سلام کو عام کرو"( مسلم: 54)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق مشہور روایت ہے جو مؤطا امام مالک اور طبقات ابن سعد میں مذکور ہے کہ وہ اکثر بازار کا چکر لگاتے رہتے تھے، جب ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پر عمل کرنے کے لیے بازار میں نکلتا ہوں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "افشواالسلام" کہ "سلام کو عام کرو۔"
افضل اخلاق اور تقویٰ اور خشوع و خضوع اور قوتِ ایمان کا تقاضا اسی میں ہے کہ انسان سلام کرنے میں پہل کرے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" ان اولى الناس بالله من يبدأ بالسلام "
یعنی "اللہ تعالیٰ کے قریب ترین انسان وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔" ابوداؤد، باب الادب
تاہم حدیث نے ترتیب واضح فرما دی ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا:
" يُسَلِّمُ الرَّاكِبُ عَلَى الْمَاشِي، وَالْمَاشِي عَلَى الْقَاعِدِ، وَالْقَلِيلُ عَلَى الْكَثِيرِ "
"  کہ سوار آدمی کو پیدل چلنے والے پر اور چلنے والے کو بیٹھے ہوئے پر اور تھوڑوں کو زیادہ پر سلام کہنا چاہئے۔"
(رواه البخارى فى الاستئذان- ابوداؤد فى الادب ومسلم مجلد13 صفحه14 ومؤطا امام مالك باب السلام و مسند احمد ج2 صفحه335)
یہ حکم در اصل تواضع و انکساری کی طرف راغب کرنے کے لیے ہے ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مذکورہ لوگ سلام نہ کریں تو ہم پہل بھی نہ کریں، بلکہ اس وقت ہم سلام میں پہل کرکے ابتداء بالسلام کی فضیلت کے حقدار بن جائیں۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ سوار پیدل چلنے والے سے اچھی حالت میں ہوتا ہے اور جب اس حالت میں وہ اپنے ایک پیدل چلنے والے مسلمان بھائی کی عزت کرتے ہوئے اس کو سلام کہتا ہے تو اس کے دل میں انتہائی خوشی ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں ان کی باہمی محبت بڑھتی ہے۔ اسی طرح گزرنے والا جب کھڑے یا بیٹھے کو سلام کہتا ہے تو اس میں اس کو کوئی دقت نہیں، جب کہ اس کے تیز چلنے میں کھڑے یا بیٹھے کو سلام کہنے میں قدرے دشواری ہے۔ اسی طرح چھوٹے کو بڑوں پر اور تھوڑوں کو زیادہ پر سلام کہنے میں حکمت یہ ہے کہ یہ عین آداب کے شایان شان ہے۔
حدیث میں ہے :
" عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعْوْدٍ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عَنِ النَّبِیِّ قَالَ:اَلْبَادِیُْ بِالسَّلامِ بَرِیْیٌٴ مِّنَ الْکِبْرِ "
سلام میں پہل کرنے والا (اس عمل کی وجہ سے )تکبر سے پاک ہے۔ تکبر کابہترین علاج یہ بھی ہے کہ ہر ملنے والے مسلمان کو سلام کرنے میں سبقت کرے۔(مشکوٰة)
یہ باہمی تعارف کا نقطہ آغاز ہے جو اجنبیت کو دور کرنے اور محبت و یگانگت کے جذبات کو فروغ دینے کا باعث بنتا ہے۔ادنی و اعلی کے فرق کو مٹا کر اہل اسلام میں اس احساس کو اجاگر کرتا ہے کہ سب مسلمان ایک ہی برادری سے وابستہ ہیں۔ سلام عام کرنے کا حکم تمام مؤمنوں کیلئے ہے، اس میں مرد کو مرد کیساتھ اور عورت کو عورت کیساتھ سلام کی ترغیب دی گئی ہے، اسی طرح مرد اپنی محرم خواتین سے سلام کرے، چنانچہ ان تمام لوگوں کو سلام میں پہل کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اور سلام کا جواب دینا سب پر لازمی ہے ، لیکن اجنبی مرد و خاتون کیلئے ایک دوسرے کو سلام اور اس کا جواب دینے کے بارے میں خاص حکم دیا گیا ہے؛ کیونکہ ایسی صورت میں بسا اوقات فتنے کا ڈر ہوتا ہے۔ اگر اجنبی خاتون بوڑھی ہو تو مصافحہ کیے بغیر  انسان سلام کر سکتا ہے، لیکن نوجوان لڑکی کو فتنے سے بچنے کیلئے سلام نہیں کرنا چاہیے، اہل علم اسی بات کی طرف رہنمائی کرتے چلے آئے ہیں۔
ابو داود (5204) میں اسما بنت یزید رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ : "ہمارے پاس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سلام کیا" "اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے"
اور حلیمی رحمہ اللہ سے منقول ہے وہ کہا کرتے تھے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم فتنہ سے محفوظ تھے، اور آپ کو اللہ کی طرف سے حفاظت ملی ہوئی تھی، لہذا اگر کوئی شخص اپنے بارے میں یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ فتنہ میں نہیں پڑے گا تو سلام کر لے بصورت دیگر خاموشی میں ہی عافیت ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ "فتح الباری " میں کہتے ہیں:
"مردوں کا عورتوں کو اور خواتین کو مردوں کو سلام کرنے کا جواز اس وقت ہے جب فتنے کا خدشہ نہ ہو۔
چنانچہ امام مالک رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا: کیا اجنبی عورت کو سلام کیا جائے؟
تو انہوں نے کہا: بوڑھی عورت کو سلام کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی ، تاہم نوجوان لڑکی کو سلام مجھے پسند نہیں ہے۔
زرقانی رحمہ اللہ نے امام مالک رحمہ اللہ کے اظہار نا پسندیدگی کی وجہ بیان کرتے ہوئے موطا کی شرح (4/385) میں لکھا ہے کہ:
"انہوں نے لڑکی کے سلام کی آواز سن کر فتنے میں مبتلا ہونے کے خدشے کی وجہ سے پسند نہیں کیا"
اسی طرح " الآداب الشرعية " (1/ 375) میں ابن مفلح رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ ابن منصور نے امام احمد سے کہا:
"خواتین کو سلام کرنے کا کیا حکم ہے؟" تو انہوں نے جواب دیا: "اگر بوڑھی ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے"
اسی طرح صالح بن امام احمد کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے عورت کو سلام کرنے کے بارے میں پوچھا تو  انہوں نے کہا: "عمر رسیدہ ہو تو کوئی حرج نہیں ، اور اگر نوجوان ہو تو اسے بولنے پر مجبور مت کرو" یعنی: سلام کا جواب دینا چونکہ واجب ہے اس لیے اگر تم اسے سلام کرو گے تو واجب کی ادائیگی کیلئے اسے بولنے پڑے گا۔
اسی طرح مہلب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
مردوں کا عورتوں کو اور خواتین کو مردوں کو سلام کرنا اس وقت جائز ہے جب فتنے کا اندیشہ نہ ہو"
سلام کی ممانعت کی حالتیں اگرچہ علماء کرام نے بہت ذکر کی ہیں ، اس سلسلہ میں فقہاءِ کرام کی تشریحات کا خلاصہ یہ ہے کہ تین صورتوں اور حالتوں میں سلام کرنا منع ہے :1۔  جب کوئی طاعت میں مشغول ہو، مثلاً نماز،ذکر،دعا، تلاوت،اذان و اقامت،خطبہ یا کسی دینی مجلس کے وقت،2۔ جب کوئی بشری حاجت میں مشغول ہو، مثلاً کھانے پینے ،سونے اور پیشاب پاخانہ وغیرہ کے وقت،3۔ جب کوئی معصیت میں مشغول ہو، تو اس موقع پر بھی سلام کی ممانعت ہے ، لیکن احادیث کی جو نصوص مل سکی ہیں ان میں صرف پیشاب و پاخانہ اور نماز کی حالت میں سلام کہنا ناجائز قرار دیا گیا ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت جو مسند احمد میں ہے اس میں نماز کی حالت ذکر ہوئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی حالت میں سلام کا جواب نہ دیا۔ (مطبعۃ دارالصادر ، مسند احمد 3/351)
مسند احمد کی ایک روایت میں یوں بھی ہے، حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بحالت پیشاب سلام کہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہ دیا، پھر میں نے سلام کہا، پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہ دیا، پھر میں نے تیسری بار سلام کہا، پھر بھی مجھے کوئی جواب نہ دیا۔آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر تشریف لے گئے۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے چل دیا۔ آخر میں مسجد میں داخل ہوا اور غمگین سی حالت میں بیٹھ گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم طہارت کر کے تشریف لائے اور تین دفعہ "وعلیک السلام ورحمۃ اللہ" فرمایا۔ (مسند احمد جلد4، صفحہ 177)
سلام باہمی اخوت و محبت کا قوی اور عظیم وسیلہ ہے، جیسے بعض علماء کا قول ہے کہ سلام ایک ایسی چابی ہے جو دلوں کے تالوں کو کھول کر رکھ دیتی ہے اور تمام دلی کدورتوں کو صاف کرتی ہے۔
سلام ایک دُعا بھی ہے اور اسلام کا شعار بھی، اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ سلام مسلمان کا ہی باہمی شعار ہے۔ اس شعار کے اہل کوئی کافر نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی غیر مسلم سلام کا مستحق ہے۔ اس لئے کسی غیرمسلم کو “السلام علیکم” نہ کہا جائے، اور اگر وہ سلام کہے تو اس کے جواب میں صرف “وعلیکم” کہہ دیا جائے، یہ مضمون حدیث شریف میں آیا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" اذا سلّم علیکم أھل الکتاب فقولوا: وعلیکم "
" جب اہلِ کتاب تمہیں سلام کہیں تو تم جواب میں “وعلیکم” کہہ دیا کرو۔" متفق علیہ۔ (مشکوٰة ص:۳۹۸) (صحیح بخاری، صحیح مسلم)
حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:
" إِذَّ مَرَّ عَلَيْكُمْ الْيَهُودُ يَقُولُ أَحَدُهُمُ:السَّامُ عَلَيْكَ، فَقُلْ وَعَلَيْكَ "
یعنی "جب یہود تمہارے پاس سے گزرتے ہیں تو وہ "السام علیکم" کہتے ہیں (یعنی تمہارے لیے موت کی بددعا کرتے ہیں) تم کہہ دیا کرو "وعلیک" کہ "تم پر ہو" (مسلم مع شرح النووى مجلد13صفحه146، ابوداؤد)
ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے شعار کی حفاظت کرے اور اسے اسی صورت میں قائم رکھے جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھلایا ہے، لہذا سلام کا کوئی متبادل لفظ جائز نہیں کیونکہ زمانہ جاہلیت میں اس قسم کی عادات پائی جاتی تھیں لیکن آفتاب اسلام کے طلوع ہونے کے بعد تمام عادات کو ختم کر کے صرف اسلام سکھایا گیا، جیسے کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ذکر ہے:
" عَنْ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ، قَالَ: «كُنَّا نَقُولُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ أَنْعَمَ اللَّهُ بِكَ عَيْنًا، وَأَنْعِمْ صَبَاحًا، فَلَمَّا كَانَ الْإِسْلَامُ نُهِينَا عَنْ ذَلِكَ»(ابوداؤد(
"حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم زمانہ جاہلیت میں کہا کرتے تھے  "اللہ! تیری وجہ سے ہم پر انعام کرے اور تیری صبح بخیر ہو، لیکن اسلام کے آنے کے بعد ہمیں اس سے روک دیا گیا۔"
غور فرمائیں کہ جب سلام کے لیے (السلام علیکم کے علاوہ) دوسرے کلمات، جو دعا کا مفہوم ادا کرتے ہوں، جائز نہیں، تو صرف اشارہ کرنا (جیسے کہ آج کل عام رواج بن چکا ہے) جس سے نہ دعا اور نہ ہی سلام کا مفہوم ادا ہوتا ہے وہ کیسے جائز ہو سکتا ہے بہتری اسی میں ہے کہ آدمی فریضہ سلام کو ادا کرتے وقت زبان سے ہی سلام کہے اور ہاتھ یا سر کے اشارے سے سلام کہنے سے بچے۔ کیونکہ حدیث پاک میں وارد ہوا ہے کہ ہاتھ کے اشارہ سے سلام کہنا یہود و نصاریٰ کی عادات تھیں، چنانچہ ترمذی شریف میں ایک حدیث وارد ہوئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" لَيْسَ مِنَّا مَنْ تَشَبَّهَ بِغَيْرِنَا، لاَ تَشَبَّهُوا بِاليَهُودِ وَلاَ بِالنَّصَارَى، فَإِنَّ تَسْلِيمَ اليَهُودِ الإِشَارَةُ بِالأَصَابِعِ، وَتَسْلِيمَ النَّصَارَى الإِشَارَةُ بِالأَكُفِّ. "
کہ "جو کسی دوسری امت کی مشابہت کرتا ہے وہ ہماری امت سے نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہود و نصاریٰ کی مشابہت نہ کرو کیونکہ یہود ہاتھ کی انگلیوں سے اور نصاریٰ ہاتھ سے سلام کہتے تھے۔"(ترمذى ، كتاب الاستئذان باب رقم7حديث رقم2695)
یہ حدیث اگرچہ ضعف کے درجہ میں ہے تاہم اس سے سبق یہی ملتا ہے کہ ہاتھ یاسر وغیرہ سے سلام کہنے یا جواب دینے سے بچنا بہتر ہے۔ ہاں اگر کوئی آدمی زبان سے معذور ہے یا جس کو سلام کہہ رہا ہے اس سے فاصلہ پر ہے تو یہ ایک علیحدہ صورت ہے۔ اس میں ہاتھ یا سر کے اشارے میں کوئی قباحت معلوم نہیں ہوتی۔ (واللہ اعلم)
بہر کیف! حقیقت یہ ہے کہ سلام کے آداب واحکام کی رعایت کرتے ہو ئے اسے عام کیا جائے تویہ خیر، رحمت، برکت اور آپسی محبت کا بہترین وسیلہ اور ذریعہ ہونے کے ساتھ اسبابِ مغفرت میں سے بھی ہے ،کاش! ہم اس پاکیزہ کلمہٴ سلام کو عام لوگوں کی طرح رسمی طور پر ادا نہ کریں، بلکہ حقیقت کے ساتھ سنت اور خلوصِ نیت سے ادا کریں تو یہی سلام اتحادِ ملت کے لیے جہاں معین ہوسکتا ہے وہیں مغفرت کا سبب بھی ہو سکتا ہے۔ حدیث میں ہے :
" اِنَّماَ مْوْجِبَاتْ الْمَغْفِرَةِ بَذْلْ السَّلاَمِ وَ حْسْنْ الْکَلَامِ "
مغفرت واجب کرنے والے اعمال میں سلام کو پھیلانا اور کلام کو نرمی و خوبی سے پیش کرنا بھی داخل ہے۔(کنز العمال)
دوسری روایت میں ہے کہ:
مَنْ سَلَّمَ عَلیٰ عِشْرِیْنَ رَجْلاً مِنَ الْمْسْلِمِیْنَ فِیْ یَوْمٍ جَمَاعَةً اَوْ فْرَادیٰ، ثْمَّ مَاتَ مِنْ یَوْمِہ ذَالِکَ، وَجَبَتْ لَہ الْجَنَّةْ، وَفِیْ لَیْلَةٍ مِّثْلْ ذَالِکَ
(یعنی جو شخص اپنے مسلمان بھائیوں میں سے بیس لوگوں کو خواہ وہ مجمع میں ہوں یا فردا ً فرداً ہوں، کسی دن یا رات میں سلام کر ے ،پھر اس دن یا رات میں اس کا انتقال ہوجائے تو اس کے لیے جنت واجب ہے۔غور کیجئے !اسلام میں سلام کی کس قدر عظمت و فضیلت ہے۔ رواہ الطبرانی، مجمع الزوائد)

افضل اخلاق اور تقویٰ اور خشوع و خضوع اور قوتِ ایمان کا تقاضا اسی میں ہے کہ انسان سلام کرنے میں پہل کرے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں دین کو سمجھنے اور ہمیں اپنی زندگیاں اسلامی تعلیمات کے مطابق بسر کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

Comments

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Popular posts from this blog

Mint and Cucumber detox water

Watermelon a symbol of Summer

Unique secret of a Healthy Life from Basil Seeds

مٹی کا گھروندا یا جنت کا محل

موت کے سوا ہر مرض کا علاج

Repentance, The act of seeking forgiveness

آپ بچوں کے ماں باپ ہیں، بچے آپکے نہیں

Mango is a true symbol of the season.