ہزار مہینوں سے افضل شب "شبِ قدر"

شبِ قدراﷲ جل ِ شانہ نے حضرت خاتم الانبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم کی اس آخری امت کو بڑی رحمتوں اور نعمتوں سے نوازا ہے، دوسری ساری امتوں کے مقابلہ میں اس امت کو کچھ خصوصی امتیازات عطافرمائے ہیں، اللہ کریم نے اس امت کی فضیلت کیلئے امت کو اطاعت وبندگی اور اعمال ِصالحہ کے لیے بے شمار مواقع فراہم کیے ہیں، تاکہ بندے اللہ کی رحمت ومغفرت اور جہنم سے خلاصی جیسے انعامات سے مستفید ہوں، ان بابرکت اوقات میں سے ایک رمضان المبارک کا مہینہ ہے۔
ماہِ رمضان کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ اس ماہ میں شبِ قدر ہے، جس میں اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائی اور اس رات کو دیگر تمام راتوں پر فضیلت وبرتری دی۔ جو سال بھر میں ایک مرتبہ آتی ہے اور صرف اس رات کو عبادات میں مشغول کردینے والوں کو ایک ہزار مہینے کی خالص عبادت سے بھی زیادہ ثواب ملتا ہے ۔شب قدر کی اہمیت کا اندازہ اس سے بخوبی لگا سکتے ہیں کہ خالق لیل ونہارجل جلالہ نے اس کی تعریف وتوصیف میں مکمل سورت نازل فرمائی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
شبِ قدر

امت ِ مرحومہ پر اس خاص امتیازی انعام کی ایک وجہ حدیث شریف میں یہ آئی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو پچھلی امتوں کی کچھ طویل طویل عمریں بطور ِ وحی دکھلائی گئیں (جو تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سینکڑوں سال کی ہوتی تھیں) اس کے بالمقابل یہ بھی معلوم ہوا کہ آپؐ کی امت کی عمریں ان کے مقابل بہت کم ہیں، جیسا کہ ایک حدیث میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میری امت کی عمریں ساٹھ اور ستر کے درمیان ہوں گی، اس واقعہ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قلب ِ مبارک پر یہ اثر کیا کہ اس حساب سے تو میری امت اعمال ِ صالحہ اور عبادات میں سب سے کم رہ جائے گی، اﷲ تعالیٰ نے آپ کے قلب ِ مبارک سے اس غم کو دور کرنے کے لئے لیلۃ القدر کی سورۃ نازل فرماکر بتلادیا کہ آپ فکر نہ کریں، اس امت کے عمل کی قیمت بہت بڑھادی گئی ہے کہ صرف ایک رات میں ایک ہزار مہینے کی عبادت سے زیادہ ثواب حاصل کرسکتے ہیں ،تاکہ دوسری امتوں سے پیچھے نہ رہ جائے،

  جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’لیلۃ القدر خیر من الف شہر‘‘یہ حدیث مؤطا امام ِ مالکؒ نے اور ترغیب وترہیب میں حافظ منذریؒ نے نقل کی ہے۔
شبِ قدر عطا کئے جانے کے بارے میں کئی روایتیں ملتی ہیں ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی کونین صاحبِ قاب قوسین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ نبی اسرائیل میں ایک شمسون نامی عابد تھا جس نے ہزار ماہ اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ اس پر صحابۂ کرام کو تعجب ہوا کہ ہمارے اعمال کی کیا حیثیت؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے اس امت کو ایک رات عطا فرمائی جو اس غازی کی مدتِ عبادت سے بہتر ہے ۔
اسی طرح ایک اور روایت حضرت علی بن عروہ سے ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے چار اشخاص کا ذکر فرمایا جنہوں نے اللہ کی اَسّی برس عبادت کی اور ان کی زندگی کا ایک لمحہ بھی اللہ کی نافرمانی میں نہیں گزرا، آپ نے ان چار اشخاص میں حضرت ایوب، حضرت حزقیل، حضرت یوشع اور حضرت زکریا علیہم السلام کا ذکر فرمایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو یہ سن کر تعجب ہوا تو جبرئیل امین علیہ السلام نازل ہوئے اور عرض کیا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! آپ کی امت کو ان لوگوں کی اَسّی سال کی عبادت سے تعجب ہوا، اللہ تعالیٰ نے آپ پر اس سے بہتر چیز نازل کر دی ہے اور سورۂ قدر پڑ ھی اور کہا یہ اس چیز سے افضل ہے جس پر آپ کو اور آپ کی امت کو تعجب ہوا تھا۔
شیخ ابن عثیمین ؒ فرماتے ہیں: اس سورت میں شب قدر کے متعدد فضائل مذکور ہیں۔
پہلی فضیلت: یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس شب میں قرآن کریم نازل فرمایا، جو نوع انسانی کے لیے ہدایت ہے اور دنیاوی واخری سعادت ہے۔
دوسری فضیلت: سورت میں اس رات کی تعظیم اور بندوں پر اللہ کے احسان کوبتانے کے لیے سوالیہ انداز اختیار کیا گیا۔ارشاد ربانی ہے: وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ  ’’ اورتمہیں کیا معلوم کہ شبِ قدر کیا ہے؟‘‘
تیسری فضیلت: یہ رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔
چھوتی فضیلت: اس رات میں فرشتوں کا نزول ہوتا ہے، فرشتے خیر وبرکت اور رحمت کے ساتھہ نزول کرتے ہیں۔
پانچویں فضیلت: یہ رات سلامتی والی رات ہے، چونکہ اس رات میں بندوں کی عذاب وعقاب سے خلاصی ہوتی ہے۔
چھٹی فضیلت: اللہ تعالیٰ نے اس شب سے متعلق پوری ایک سورت نازل فرمائی جو روز قیامت تک پڑھی جائے گی۔

علامہ قرطبی نے اس رات کولیلۃ القدر کہنے کی وجہ یوں بیان کی ہے ’’قیل سمیت بذلک لانہ انزل فیھا کتابا ذا قدر علیٰ رسول ذی قدر علیٰ امۃ ذات قدر‘‘یعنی اسے شب قدر اس لئے کہتے ہیں کہا اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اس میں ایک بڑ ی قدر ومنزلت والی کتاب ، بڑ ے قدر ومنزلت والے رسول پر اور بڑ ی قدر ومنزلت والی امت کے لئے نازل فرمائی۔
(ضیاء القرآن جلد !۵ص!۶۱۹)
لیلۃ القدر احادیث کے آئینہ میں
حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے ایمان ویقین کے ساتھ روزے رکھے اس کے پچھلے گناہ بخش دئے جاتے ہیں ۔اور جو شب قدر میں ایمان ویقین کے ساتھ (یعنی ثواب کی امید سے )قیام(یعنی نوافل، تلاوت، ذکر، نعت، درود، دعاو توبہ ، واستغفار )کرے تو اس کے پچھلے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں ۔ (بخاری شریف)
اور حضرت انس بن مالک نے فرمایا کہ جب رمضان کا مہینہ شروع ہوا تو حضور اقدس نور مجسم صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ یہ مہینہ تم میں آیا ہے اور اس میں ایک رات ایسی آئی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے تو جو شخص اس کی برکتوں سے محروم رہا وہ تمام بھلائیوں سے محروم رہا ، اور محروم نہیں رکھا جاتا اس کی بھلائیوں سے مگر وہ جوبالکل بے نصیب ہو ۔ (ابن ماجہ)
لیلۃ القدر کونسی رات ہے اس کے متعلق اتنی بات تو خود قرآن کریم نے متعین کردی ہے کہ یہ رات ماہ ِ رمضان کی کوئی رات ہوگی، اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں اس کی مزید توضیح وتعیین بذریعہ وحی الٰہی اس طرح فرمائی ہے کہ مشکوٰۃ میں بحوالہ بخاری شریف حضرت صدیقہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شب ِ قدرکو رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو، یعنی اکیس(۲۱) پچیس (۲۵) ستائیس (۲۷) انتیس(۲۹)ان راتوں میں سے کوئی رات شب ِ قدر ہوگی اور بعض روایات میں ستائیسویں شب کے متعلق مزید رجحان ثابت ہوتا ہے،یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ اسلامی احکام میں اکیسویں شب وہ کہلائے گی جو ۲۰/تاریخ کے بعد ۲۱/تاریخ سے پہلے آئے، اسی طرح ۲۳، ۲۵وغیرہ کو سمجھئے ،
اور ایک حدیث میں وارد ہے:
عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہُما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
التمسوها في العشر الاواخر من رمضان ليلة القدر في تاسعة تبقى، في سابعة تبقى، في خامسة تبقى
لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرے ( یعنی آخری دس دِن اور راتوں میں ) طلب کرو ، شبِ قدر نویں میں باقی رہے گی ، ساتویں میں باقی رہے گی پانچویں میں باقی رہے گی۔صحيح البخاري , كتاب فضل ليلة القدر , باب تحري ليلة القدر في الوتر من العشر الأواخر , حديث:2060
اﷲ تعالیٰ کے احکام کی حکمتوں کو پورا کون دریافت کرسکتا ہے، یہاں بالتصریح کسی ایک رات کو متعین کرکے نہ بتلانے اور عشرہ اخیرہ رمضان کی پانچ طاق راتوں میں دائر کردینے میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ انسان کے شوق ِ عبادت اور فکر ِ آخرت کی آزمائش ہو کہ شب ِ قدر کی برکات حاصل کرنے کے لئے پورے عشرہ اواخر رمضان میں شب بیداری کرے ، نوافل ، توبہ واستغفار وغیرہ کی کثرت کرے اگر ذمہ میں قضا نماز باقی ہو(معاذ اللہ!)تو نوافل کی بجائے قضا نمازوں کو ادا کرے۔
شب قدر کو متعین نہ کرنے کی علماء مفسرین نے کئی حکمتیں بیان فرمائی ہیں مگر یہاں بخوف طوالت حضرت پیر محمد کرم شاہ ازہری رحمۃ اللہ علیہ کی تحریر پر اکتفا کی جاتی ہے جو نہایت مختصر مگر جامع اور اقوال مفسرین کا خلاصہ ہے۔ پیر صاحب فرماتے ہیں ’’اس (شب قدر) کو متعین نہ فرمانے میں بھی کئی حکمتیں ہیں تاکہ مسلمان اس رات کو تلاش میں زیادہ نہیں تو کم ازکم پانچ طاق راتیں اللہ تعالیٰ کے ذکر اور عبادت میں گذاریں۔ اگر رات متعین کردی جاتی تو لوگ صرف اسی رات کو ہی جاگتے اور عبادت کرتے۔ نیز اس رات کو اگر مقرر کردیا جاتا تو اسے ذکر و عبادت میں گذارنے والے تو اجر عظیم کے مستحق قرار پاتے لیکن اسے گناہوں میں صرف کرنے والے بھی سنگین سزا میں مبتلا کیے جاتے کیونکہ انہوں نے شب قدر کو پہچانتے ہوئے اسے خدا کی نافرمانی میں ضایع کیا۔ اس لیے رحمت کا تقاضا یہی ہے کہ اسے ستور رکھا جائے۔ تاکہ اگر کوئی بدنصیب بے صبری میں اس رات کو گناہوں کی بھینٹ چڑھاتا ہے تو اسے گناہ ایک عام رات کا ملے اور جاگنے والے زیادہ راتیں جاگتے رہیں۔
لیلۃ القدر کی علامتیں۔
حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ رات اکائی کی ہے یعنی اکیسویں یا تیئسویں یا پچیسویں یا ستائیسویں یا آخری رات۔ یہ رات بالکل صاف اور ایسی روشن ہوتی ہے کہ گویا چاند چڑ ھا ہوا ہے ، اس میں سکون اور دلجمعی ہوتی ہے ، نہ سردی زیادہ ہوتی ہے نہ گرمی، صبح تک ستانے نہیں جھڑ تے ، اس کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اس کی صبح کو سورج تیز شعاعوں سے نہیں نکلتا بلکہ چودہویں رات کی طرح صاف نکلتا ہے ۔
شب قدر کی عزت و منزلت کے اسباب وجوہات جو قرآن مجید نے بیان فرمائے ہیں۔
قرآن کی آیات سے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید ماہ مبارک میں نازل ہوا ہے :” شہر رمضان الذی انزل فیہ القراٰن “ (بقرہ۔ ۱۸۵) اور اس تعبیر کا ظاہر یہ ہے کہ سارا قرآن اسی ماہ میں نازل ہوا ہے ۔
اور سورہ قدر کی پہلی آیت میں مزید فرماتا ہے : "انّآ انزلناہ فی لیلة القدر" ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا ۔
اگر چہ اس آیت میں صراحت کے ساتھ قرآن کا نام ذکر نہیں ہوا ، لیکن یہ بات مسلم ہے کہ ” انّا انزلناہ“ کی ضمیر قرآن کی طرف لوٹتی ہے اور اس کا ظاہری ابہام اس کی عظمت اور اہمیت کے بیان کے لیے ہے ۔
 انّا انزلناہ“ ( ہم نے اسے نازل کیا ہے ) کی تعبیر بھی اس عظیم آسمانی کتاب کی عظمت کی طرف ایک اور اشارہ ہے جس کے نزول کی خدا نے اپنی طرف نسبت دی ہے مخصوصاً صیغہ متکلم مع الغیر کے ساتھ جو جمع کامفہوم رکھتا ہے ، اور یہ عظمت کی دلیل ہے ۔
اس کا شب” قدر“ میں نزول وہی شب جس میں انسانوں کی سر نوشت اور مقدرات کی تعین ہوتی ہے ۔ یہ اس عظیم آسمانی کتاب کے سرنوشت ساز ہونے کی ایک اور دلیل ہے۔
اس آیت کو سورہ بقرہ کی آیت کے ساتھ ملانے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ شب قدر ماہ مبارک رمضان میں ہے ، لیکن وہ کون سی رات ہے قرآن سے اس بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوتا ۔ لیکن روایات میں اس سلسلہ میں بھی اور دوسرے مسائل کے بارے میں بھی گفتگو کریں گے۔
یہاں ایک سوال سامنے آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ تاریخی لحاظ سے بھی اور قرآن کے مضمون کے پیغمبر اکرم کی زندگی سے ارتباط کے لحاظ سے بھی یہ مسلم ہے کہ یہ آسمانی کتاب تدریجی طور پر اور ۲۳ / سال کے عرصہ میں نازل ہوئی ہے ۔ یہ بات اوپر والی آیات سے جو یہ کہتی ہیں کہ ماہ رمضان میں اور شب قدر میں نازل ہوئی، کس طرح ساز گار ہوگی؟
اس سوال کا جواب:۔ جیسا کہ بہت محققین نے کہا ہے ۔ یہ نزول دو طرح کا رہا ہے ایک نزول دفعی یعنی ایک بار نازل ہوا۔ شب قدر میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب مبارک پر ایک ساتھ نازل ہوا ہے اور دوسرا نزول ، نزول تدریجی ہے جو کہ پیغمبر اکرم( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چالیس کی عمر میں بعثت کے دن نازل ہونا شروع ہوا اور آنحضرت کی عمر مبارک کے 63 ویں سال تک نازل ہوتا رہا ہے، جوکہ 23 سال نازل ہوتا رہا ہے۔ یعنی قرآن ایک ساتھ ایک بار شب قدر میں نازل ہوا ہے اور دوسری مرتبہ 23 سال آھستہ آھستہ نازل ہوتا رہا ہے۔
فرشتوں کا نزول
سورۂ قدر میں اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا ’’تنزل الملٰئکۃ و الروح فیہا‘‘ 
ملائکہ اور روح القدس کا اس رات میں زمین پر نزول ہوتا ہے .
 حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’شب قدر میں حضرت جبریل علیہ السلام فرشتوں کے ایک جم غفیر کے ساتھ زمین پر اترتا ہے اور ملائکہ کا یہ گروہ ہر اس بندے کے لیے دعائے مغفرت اور التجائے رحمت کرتا ہے جو کھڑے ہوئے یا بیٹھے ہوئے اللہ عزوجل کے ذکر میں مشغول ہوتا ہے۔ (درمثنوی)
ایک روایت میں ہے کہ حضرت جبریل امین علیہ السلام ہر مؤمن (عابد شب قدر) سے مصافحہ کرتے ہیں۔ اس کی علامت یہ ہے کہ اس وقت مؤمن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور اس کا دل نرم تر ہوجاتا ہے، اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم)
یہ رات طلوع فجر تک امن و سلامتی کی رات ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ’’سلام ھی حتیٰ مطلع الفجر‘‘ اس رات میں نفس و شیطان کی وسوسہ اندازیاں عابدوں کو پریشان نہیں کرتے
اللہ تعالیٰ اس رات میں حضرت جبریل امین علیہ السلام کو حکم فرماتا ہے کہ سدرۃ المنتہیٰ سے ستر ہزار فرشتے لے کر زمین پر جائیں ان کے ساتھ نور کے جھنڈے ہوتے ہیں۔ زمین پر اترکر چار مقامات پر انہیں گاڑدیتے ہیں۔ کعبہ معظمہ پر، روضۂ انور پر، مسجد اقصیٰ پر اور مسجد طور سینا پر پھر جبریل علیہ السلام ان تمام فرشتوں کو حکم فرماتے ہیں کہ زمین میں پھیل جاؤ۔ وہ تمام زمین میں پھیل جاتے ہیں اور جہاں بھی کہیں مسلمان مرد یا عورت موجود ہوتے ہیں فرشتے وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ لیکن جس گھر میں کتا، خنزیر، شراب، تصویر یا بدکاری سے جنبی ہوتا ہے وہاں نہیں جاتے۔ وہاں پہنچ کر فرشتے تسبیح و تقدیس کرتے ہیں، کلمہ شریف پڑھتے ہیں، رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لیے استغفار کرتے ہیں اور بوقت فجر آسمانوں کی طرف واپس ہوجاتے ہیں جب ان کی ملاقات پہلے آسمان والے فرشتوں سے ہوتی ہے تو وہ ان سے پوچھتے ہیں تم کہاں سے آئے ہو؟ یہ کہتے ہیں ہم دنیا میں تھے کیونکہ آج محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ وسلم کی امت کی شب قدر تھی۔ آسمان والے فرشتے کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے آج محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ وسلم کی امت کی حاجات کے سلسلہ میں کیا کیا؟ یہ کہتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ نے ان میں سے نیک لوگوں کو بخش دیا، اور بدکاروں کے لیے شفاعت قبول فرمالی۔ پھر آسمان دنیا والے فرشتے تسبیح و تقدیس میں شروع ہوجاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے جو امت محمدیہ کی مغفرت فرمائی اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ دوسرے آسمان پر جاتے ہیں تو وہاں پر بھی یہی معاملہ ہوتا ہے یہاں تک کہ سدرۃ المنتہیٰ، جنت الماویٰ، جنت نعیم، جنت عدن اور جنت الفردوس سے ہوتے ہوئے عرش الٰہی تک پہنچتے ہیں تو عرش بھی امت کی مغفرت پر شکریہ ادا کرتا ہے۔ عرش کہتا ہے ’’یا اللہ مجھے خبر پہنچی ہے کہ گذشتہ رات تو نے محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ وسلم کی امت کے صالحین کی بخشش فرمائی ہے اور گنہگاروں کے حق میں نیکوکاروں کی شفاعت قبول فرمائی ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’اے عرش تم نے سچ کہا محمد مصطفی کی امت کے لیے میرے پاس بڑی عزت و توقیر ہے، اور ایسی نعمتیں ہیں جن کو کسی آنکھ نے نہیں دیکھا کسی کان نے نہیں سنا اور کسی کے دل میں ان نعمتوں کا کبھی خیال بھی نہیں آیا۔‘‘ (غنیۃ الطالبین)
فرشتے کیوں نازل ہوتے ہیں ؟
آپ یہ سوچتے ہوں گے کہ آخر شب قدر میں فرشتے کیوں نازل ہوتے ہیں ؟ جب کہ فرشتے خود تسبیح و تقدیس اور تہلیل کے تونگر ہیں ، قیام، رکوع اور سجود ساری عبادات سے سرشار ہیں پھر انسانوں کی وہ کون سی عبادت ہے جسے دیکھنے کے شوق میں وہ انسانوں سے ملاقات کی تمنا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے اجازت طلب کر کے زمین پر نازل ہوتے ہیں ؟آئیے اس سلسلے میں چند باتیں ملاحظہ کرتے ہیں تاکہ اس رات عبادت کرنے کا جذبہ پیدا ہو۔
محدثینِ کرام نے اس کی وجہ بیان کی ہے کہ کوئی شخص خود بھوکا رہ کر اپنا کھانا کسی اور ضرورت مند کو کھال دے یہ وہ نادر عبادت ہے جو فرشتوں میں نہیں ہوتی، گنا ہوں پر توبہ اور ندامت کے آنسو بہانا اور گڑ گڑ انا، اللہ سے معافی چاہنا، اپنی طبعی نیند چھوڑ کر اللہ کی یاد کے لئے رات کے پچھلے پہر اٹھنا اور خوفِ خدا سے ہچکیاں لے لے کر رونا، یہ وہ عبادتیں ہیں جن کا فرشتوں کے یہاں کوئی تصور نہیں کیوں کہ نہ وہ کھاتے ہیں ، نہ پیتے ہیں ، نہ گناہ کرتے ہیں ، نہ سوتے ہیں ۔
حدیثِ قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’گناہ گاروں کی سسکیوں اور ہچکیوں کی آواز مجھے تسبیح و تہلیل کی آوازوں سے زیادہ پسند ہے ‘‘ اس لئے فرشتے یادِ خدا میں آنسو بہانے والی آنکھوں کو دیکھنے اور خوفِ خدا سے نکلنے والی آہوں کو سننے کے لئے زمین پر اترتے ہیں ۔
امام رازی علیہ الرحمہ نے اس کہ وجہ یہ بیان فرمائی کہ انسان کی عادت ہے کہ وہ علما اور صالحین کے سامنے زیادہ اچھی اور زیادہ خشوع و خضوع سے عبادت کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس رات فرشتوں کو بھیجتا ہے کہ اے انسانو! تم عبادت گزاروں کی مجلس میں زیادہ عبادت کرتے ہو آؤ اب ملائکہ کی خضوع اور خشوع سے عبادت کرو۔
فرشتوں کے نزول کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ انسان کی پیدائش کے وقت فرشتوں نے استفسار کیا تھا کہ اسے پیدا کرنے میں کیا حکمت ہے جو زمین میں فسق و فجور اور خونریزی کرے گا؟ لہٰذا اس رات اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے ان کی امیدوں سے بڑ ھ کر اجر و ثواب کا وعدہ کیا، اس رات کے عبادت گزاروں کو زبانِ رسالت سے مغفرت کی نوید سنائی، فرشتوں کی آمد اور ان کی زیارت اور سلام کرنے کی بشارت دی تاکہ اس کے یہ رات جاگ کر گزاریں ، تھکاوٹ اور نیند کے باوجود اپنے آپ کو بستروں اور آرام سے دور رکھیں تاکہ جب فرشتے آسمان سے اتریں تو ان سے کہا جا سکے یہی وہ ابنِ آدم ہیں جن کی خونریزیوں کی تم نے خبر دی تھی، یہی وہ شر ر خاکی ہے جس کے فسق و فجور کا تم نے ذکر کیا تھا، اس کی طبیعت اور خلقت میں ہم نے رات کی نیند رکھی ہے لیکن یہ اپنے طبعی اور خلقی تقاضوں کو چھوڑ کر ہماری رضا جوئی کے لئے رات سجدوں اور قیام میں گزار رہا ہے ۔
فرشتوں کا سلام:
امام رازی لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ آخرت میں فرشتے مسلمانوں کی زیارت کریں گے اور آ کر سلام عرض کریں گے ’’الملٰئکۃ یدخلون علیہم من کل باب سلام علیکم‘‘ فرشتے جنت کے ہر دروازے سے ان کے پاس آئیں گے اور آ کر سلام کریں گے اور لیلۃ القدر میں یہ ظاہر فرمایا کہ اگر تم میری عبادت میں مشغول ہو جاؤ تو آخرت تو الگ رہی دنیا میں بھی فرشتے تمہاری زیارت کو آئیں گے اور آ کر سلام کریں گے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ شب ِ قدر اس امت کے لئے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے امتیازی انعام ہے کہ ایک رات کی عبادت کا ثواب ایک ہزار مہینے کے برابر نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ کردیا ہے، ایک ہزار مہینے تراسی برس چار ماہ ہوتے ہیں ، پھر اس میں رحمت کے فرشتوں کا نزول اور عبادت گذار کے لئے رحمت کی دم بدم دعائیں بھی ہیں اور تمام گناہوں سے مغفرت کا وعدہ بھی اور اﷲ تعالیٰ کی طرف سے یہ منادی بھی ہوتی ہے کہ ہم سے جو دعا مانگی جائے گی قبول کریں گے، یہی وجہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص شب ِ قدر کی برکات سے محروم رہا وہ ہر بھلائی سے محروم رہا اور اس بھلائی سے صرف وہی شخص محروم ہوگا جو بڑا ہی بدنصیب ہوگا، یہ روایت ابن ِ ماجہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے۔
احادیث نبویہ میں بھی شبِ قدر کے بے شمار فضائل وارد ہیں:
صحیحین کی روایت ہے نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
من قام ليلة القدر إيماناً واحتساباً غفر له ما تقدم من ذنبه(متفق عليه)
’’جس نے ایمان اور ثواب کی نیت سے شب قدر میں قیام کیا اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔‘‘ آپ ﷺ کے ارشاد’’ ایماناً‘‘ سے اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکت اور اس رات میں عبادت پر اللہ نے جو جو اجر لکھا ہے اس پر ایمان لانا ہے، اور ’’احتسابا ً‘‘ کا مطلب ہے، اجر وثواب کی نیت رکھنا ۔ ، قیام کرنے سے مراد کسی عبادت میں لگنا ہے جس میں نماز پڑھنا بھی داخل ہے اور ذکر وتلاوت وغیرہ بھی۔
 سورۂ دخان کی آیت میں حق تعالیٰ نے اس رات کو لیلہ مبارکہ کے نام سے ارشاد فرمایا ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی ارشاد ہے: فِیْھَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ، اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَا۔ یعنی اس رات میں طے کردیا جائے گا کہ ہر کام حکمت والا ہماری طرف سے، اس رات کی خصوصیت یہ ہے کہ نزول ِ قرآن اس رات میں ہوا اور در ِ منثور کی ایک روایت میں ہے کہ اسی رات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اُٹھایا گیا، سنن ِ بیہقی میں حضرت انسؓ کے واسطے سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ ارشاد منقول ہے کہ شب ِ قدر میں جبرئیل امین فرشتوں کے ایک گروہ کے ساتھ زمین پر اترتے ہیں اور جس شخص کو ذکر وعبادات میں مشغول دیکھتے ہیں اس کے لئے رحمت کی دعاء کرتے ہیں ۔
گناہوں کی معافی کے متعلق شریعت کا اصل ضابطہ یہ ہے کہ صغیرہ گناہ تو نفلی عبادات اور دوسری عبادات اور دوسری نیکیوں کے ذریعہ بھی خود بخود معاف ہوجاتے ہیں، مگر کبیرہ گناہ بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے، اس حدیث میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے صغیرہ گناہ کی معافی کی قید نہیں لگائی بلکہ عام رکھا، اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ اول تو مومن سے گناہ ِ کبیرہ میں مبتلا ہونا بہت بعید ہے اور اگر ہو بھی گیا تو مومن کو اس وقت تک چین نہیں آتا جب تک توبہ نہ کرلے، اور فرض کروکہ پہلے غفلت ہی ہوتی رہی اب جبکہ شب ِ قدر میں وہ اﷲ کے سامنے کھڑا ہے اور اس سے اپنی مغفرت کی دعاء اور دوسری مرادیں مانگ رہا ہے تو یقینا اس کو اپنے پچھلے کئے ہوئے گناہوں پر ندامت وشرمندگی بھی ہوگی اور آئندہ ان سے بچتے رہنے کا پختہ ارادہ بھی کرے گا ، اسی کا نام توبہ ہے، اس سے معلوم ہواکہ شب ِ قدر کی عبادت کے لئے پچھلے گناہوں سے توبہ لازم وملزوم ہیں۔
شب قدر کی عبادات
1۔اس شب قدر کو بارہ رکعت نماز تین سلام سے پڑھے ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ قدر ایک مرتبہ اس کے بعد سورہ اخلاص پندرہ مرتبہ پڑھے پھر سلام کے بعد ستر مرتبہ استغفار پڑھے ۔اللہ پاک اس نماز کو پڑھنے والے کو نبیوں کی عبادت کا ثواب عطا فرمائے گا ۔انشا اللہ العظیم
 اس بڑی برکتوں والی رات میں دو رکعت نماز پڑھے ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ قدر تین تین دفعہ اس کے بعد سورہ اخلاص پانچ مرتبہ پڑھے ،سلام کے بعد ستائیس مرتبہ پڑھے کر گناہوں کی مغفرت کی دعا کرے ۔اللہ تعالیٰ اس کے تمام پچھلے گناہوں کومعاف فرما دے گا ۔
3۔ اس رات کو چار رکعت نماز دو سلام سے پڑھنی ہے ، ہر رکعت میں بعد سورہ فاتحہ کے سورہ تکاثرایک ایک بار اس کے بعد سورہ اخلاص تین تین مرتبہ پڑھنی ہے ۔اس نماز کو پڑھنے الے پر اللہ پاک کی موت کی سختی آسان ہوجاے گی ۔انشا اللہ تعالی اس پر عذاب قبر بھی معاف ہوجاے گا۔
4۔ اس شب قدر کو ساتوں حم پڑھے یہ ساتوں حم عذاب قبر سے نجات اور مغفرت گناہ کے لے بہت افضل ہیں ۔
  ستاسویں شب قدر کو سورہ ملک سات مرتبہ پڑھے۔ مغفرت کے لے بہت فضیلت والی ہے ۔


صلوٰۃ التسبیح
حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا : چچا کیا میں آپ سے محبت کا حق ادا نہ کروں؟ کیا میں آپ کو فائدہ نہ پہنچاؤں؟ کیا میں آپ سے صلہ رحمی نہ کروں؟ انہوں نے عرض کیا : کیوں نہیں یا رسول اﷲ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : چار رکعت نماز پڑھیں ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھیں جب قرات سے فارغ ہو جائیں تو رکوع سے قبل 15 بار سُبْحَانَ اﷲِ وَالْحَمْدُ ِﷲِ وَلَا اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ وَاﷲُ اَکْبَر کہیں، پھر رکوع کریں اور اس میں دس بار، پھر رکوع سے اٹھ کر دس بار،  پھر پہلے سجدہ میں دس بار، پھر سجدے سے اٹھ کر دس بار، پھر دوسرے سجدہ میں دس بار،  پھر دوسرے سجدے سے اٹھ کر کھڑے ہونے سے قبل دس بار۔ اس طرح ہر رکعت میں 75 بار ہوں گی اور چار رکعت میں 300 بار۔ اگر آپ کے گناہ ریت کے برابر بھی ہوں گے تو (اس نماز کے سبب) اﷲ انہیں معاف فرما دے گا۔ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! اسے روزانہ پڑھنے کی طاقت کون رکھتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مہینہ میں ایک بار ورنہ سال میں ایک بار (پڑھ سکتے ہیں)۔
ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ماجاء فی صلاة التسبيح، 1 : 172. 173، رقم : 1386

شب قدر میں قبولیتِ دُعا
شب قدرمیں ایک ایسی ساعت ہے کہ جس میں جو دعا مانگی جائے وہ قبول ہوتی ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ شب قدر میں ایسی جامع دعا مانگیں جو دونوں جہانوں میں فائدہ بخش ہو۔ مثلاً اپنے گناہوں کی بخشش اور رضائے الٰہی کے حصول کی دعا مانگی جائے۔
شبِ قدر

ام المومنین سیّدہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کی یارسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم بتائیں کہ اگر مجھے لیلة القدر (شب قدر) کا پتہ چل جائے تو میں کونسی دعا مانگوں؟
 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تو یہ دعا مانگ اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوّ تُحِبُّ العَفوَفَاعفُ عَنِّی ”اے اللہ! بے شک تو معاف کرنے والا ہے اور معافی کو درست رکھتا ہے مجھے بھی معاف کر دے“
اس حدیث میں شب ِ قدر کی سب سے بڑی عبادت توبہ ہی کو قرار دیا ہے ، اس لئے ہر مسلمان پر لازم ہے کہ اس مبارک رات میں اپنے سب پچھلے گناہوں سے توبہ کرے اور معافی مانگنے کا پورا اہتمام کرے۔
علمائے کرام نے فرمایا ’’اس شب میں نوافل کی نماز زیادہ سے زیادہ اد ا کی جائے، اپنے گناہوں پر نادم ہوکر توبہ و استغفار کی کثرت کی جائے۔ پوری توجہ و یکسوئی کے ساتھ گڑگڑا کر دعائیں مانگی جائیں۔ ذکر و اذکار، تسبیحات و تہلیلات، تکبیرات و تمجیدات اور درود سلام اپنے نبی محتشم صلّی اللہ علیہ وسلم پر پڑھتے ہوئے اس شب کو بسر کیا جائے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ میں یقین کامل رکھا جائے کہ آج رات پروردگار عالم نے اپنی بے پایاں عنایات و عطایا سے میرے تمام گناہوں کو بخش دیا۔ اب میں آئندہ کوئی خطا، کوئی جرم، کوئی کوتاہی رب و رسول کے احکامات و ارشادات میں ہرگز نہیں کروں گیا۔ یا اللہ تو معاف فرما درگذر فرما اور یہ سعی حقیر قبول فرما آمین۔
 شبِ قدر


آيے شب قدر کی ان متبرک راتوں میں اپنے رب کے حضور گڑگڑا کر دعا کریں اور اپنے رب کی خوشنودی حاصل کریں۔ یہ چھوٹی چھوٹی سی دعایئں ھیں خود بھی انکو اپنی نمازوں میں شامل کیجیے اور اپنے رب کی رضا اور خوشنودی کی  دعا مانگیے کہ اللہ تعالی کو اپنے بندوں کا یہ عمل بہت اچھا لگتا ہے۔
ربنا آتنا فى الدنيا حسنة و فى الآخرة حسنة و قنا عذاب النار ۔
پروردگار ہميں دنيا ميں بھى نيکى عطا فرما اور آخرت ميں بھي،اور ہميں جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔بقرہ۔۲۰۱
ربنا افرغ علينا صبراً وثبت اقدامنا وانصرنا على القوم الکافرين۔
پالنے والے ہميں بے پناہ صبر عطا فرماہمارے قدموں کو ثبات دے اور ہميں کافروں کے مقابلہ ميں نصرت عطا فرما۔بقرہ۔۲۵۰
ربنا لا تواخذنا ان نسينا او اٴخطاٴنا۔
پالنے والے ہم جو بھول جائیں يا ہم سے غلطى ہو جائے اس کا مواخذہ نہ کرنا ۔(یعنى اسکے بارے ميں جواب طلب نہ کرنا]۔بقرہ۔۲۸۶
ربنا ولا تحمل علينا اصراًکما حملتہ على الذين من قبلنا۔
پالنے والے ہمارے اوپر ويسا بوجھ نہ ڈالنا جیسا پچھلى امتوں پر ڈالا گيا ۔
بقرہ۔۲۸۶
ربنا ولا تحملنا مالا طاقة لنابہ واعف عنا واغفرلنا وارحمنآ انت مولانا فانصرناعلى القوم الکافرين۔
پالنے والے ہم پر وہ بار نہ ڈالنا جس کى ہم ميں طاقت نہ ہو ،ہميں معاف کردينا،ہميں بخش دينا،تو ہمارا مولا اور مالک ہے ،اب کافروں کے مقابلہ ميں ہمارى مدد فرما ۔بقرہ۔۲۸۶
ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ ہديتنا وھب لنا من لدنک رحمة انک انت الوھاب۔
پالنے والے ہدایت کے بعد ہمارے دلوں کو نہ پھیرنا، ہميں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما،تو توبہترين عطا کرنے والا ہے۔آل عمران۔۸
ربنا اننا آمنا فاغفرلنا ذنوبنا وقنا عذاب النار۔
پالنے والے ہم ايمان لے آئے ہيں ہمارے گناہوں کو معاف کر دے اور ہميں جہنم سے بچا لے۔آل عمران ۔۱۶
ربنا اغفر لنا ذنوبنا و اسرافنا فى امرنا وثبت اقدامنا و انصرنا على القوم الکافرين۔
پالنے والے ہمارے گناہوں کو معاف کر دے ہمارے کاموں ميں زيادتیوں کو معاف فرما، ہمارے قدموں ميں ثبات عطا فرمااور کافروں کے مقابلہ ميں ہمارى مدد فرما۔آل عمران ۔۱۴۷
ربنا فاغفر لنا ذنوبنا وکفر عنا سيئاتنا و توفنا مع الابرار۔
پالنے والے ہمارے گناہوں کو معاف فرما، ہم سے ہمارى برائيوں کو دور کردے اور ہميں نيک بندوں کے ساتھ محشور فرما۔
ربنا آمنا فاکتبنا مع الشاہدين ۔
پالنے والے ہم ايمان لے آئے ہيں لہذا ہمارا نام بھى تصدیق کرنے والوں ميں لکھ لے۔مائدہ۔۸۳
ربنا لاتجعلنا مع القوم الظالمين۔
پالنے والے ہميں ظالموں کے ساتھ قرار نہ دينا۔اعراف۔۴۷
ربنا افرغ علينا صبراً و توفنا مسلمين
پالنے والے ہميں بہت زيادہ صبر عطا فرما اور ہميں مسلمان دنيا سے اٹھا۔اعراف۔۱۲۶
ربنا و تقبل دعاء۔
پالنے والے ميرى دعا کو قبول فرما۔ابراہيم۔۴۰
ربنا اغفرلى ولوالدى وللمومنيں يوم يقوم الحساب۔
پالنے والے مجھے،ميرے والدين کو اور تمام مومنين کو اس دن بخش دينا جس دن حساب قائم ہوگا۔ابراہيم ۔۴۱
ربنا آتنا من لدنک رحمة و ہييٴ لنا من امرنا رشداً۔
پالنے والے ہميں اپنى رحمت عطا فرما اور ہمارے کام ميں کاميابى کا سامان فراہم کردے۔
عبادت کم، اجر و ثواب زیادہ:
 جس طرح اکیلے نماز پڑھنے سے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا ثواب زیادہ ہے، گھر میں نماز پڑھنے سے مسجد میں نماز پڑھنے کا ثواب زیادہ ہے، عام مسجدوں میں نماز ادا کرنے سے جامع مسجد میں نماز ادا کرنے کا ثواب زیادہ ہے، باقی مساجد میں نماز ادا کرنے سے بالترتیب مسجد اقصیٰ، مسجد نبوی اور مسجد حرام میں نماز ادا کرنے کا ثواب زیادہ ہے، باقی ایام میں عبادت کرنے سے جمعہ کے دن عبادت کرنے کا ثواب زیادہ ہے، باقی لوگوں کی عبادت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عبادت کا ثواب زیادہ ہے تمام عابدوں سے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کا ثواب بہت ہی زیادہ ہے، یوں ہی باقی راتوں میں عبادت کرنے سے شب قدر میں عبادت کرنے کا اجر و ثواب زیادہ ہے۔
رحمت خدابہانہ می جوید، بہا نمی جوید
اللہ تعالیٰ کی رحمت کسی بہانے کی تلاش میں ہوتی ہے، رحمت الٰہی کو قیمت کی تلاش نہیں ہوتی، بس بندہ کسی بہانے رحمٰن و رحیم ذات کے دروازے پر آجائے اور رحمت خدا پاجائے۔اس لئے ہمیں چاہئے کہ اس رات کو پا لیں ایک رات میں عمر بھر کی عبادت کا ثمرہ پا سکیں گے۔ کیونکہ اللہ نے شب قدر کو ھزار مہینوں سے افضل قرار دیا ہے ۔ ھزار مہینہ یعنی 83 سال۔ یعنی ایک اچھی عمر۔ اس لئے چاہئے کہ اپنے لئے سعادت کی زندگی اللہ سے طلب کریں۔جس زندگی میں دنیا بھی آباد ہو آخرت بھی آباد ہو۔ اللہ نے انسان کو اپنی تقدیر بنانے یا بگاڑنے کا اختیار خود انسان کے ہاتھ دیا ہے وہ سعادت کی زندگی حاصل کرنا چاہے گا اسے مل جائے گی وہ شقاوت کی زندگی چاہے گا اسے حاصل ہو جائے گی۔اس لئے ہمیں چاہئے روزانہ رات کو حسب استطاعت صدقہ کریں تا کہ ان دس راتوں میں سے کوئی ایک رات شب قدر ہوئی تو اس صدقے کا ثواب گویا 83 سال تک کے صدقے کا ثواب .
ہر رات کم از کم  دو رکعت نفل نماز ضرور پڑھیں تا کہ ان 10 راتوں میں سے کوئی ایک رات شب قدر ہوئی تو 83 سال تک کے نفلوں کا ثواب  .
ہر رات کو تین بار سورہ اخلاص پڑھ لیں تا کہ ان دس راتوں میں سے کوئی ایک رات شب قدر ہو تو 83 سال تک روزانہ قران مجید مکمل کرنے کا ثواب.

اللہ تعالی ہم سب کو رمضان المبارک کی ان بڑي فضلتیوں والی راتوں میں ایسی عبادت کرنے کی توفیق عطا فرماء جو ہم کو ہمارے رب سے قریب تر کردے،اللہ پاک ہماری قلیل عبادتوں کو قبول فرما‎ ‎ ۓ ،اللہ پاک ہم سب کو نیکی اور سچائ کے خیر و سچائ کے ایسے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرماۓ جس سے ہمارا رب ہم  سے راضی ہوجا ۓ آمین ثم آمین۔‏معزز احباب سے التماس دعا ہے کہ رمضان المبارک کے اس مغفرت اور توبہ کے آخری عشرے میں مجھے اور میرے اہل خانہ کو اپنی دعاؤں میں ضرو یاد رکھئے گا۔



Comments

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Popular posts from this blog

Mint and Cucumber detox water

Watermelon a symbol of Summer

Unique secret of a Healthy Life from Basil Seeds

سلام کو عام کرو

موت کے سوا ہر مرض کا علاج

Repentance, The act of seeking forgiveness

آپ بچوں کے ماں باپ ہیں، بچے آپکے نہیں

مٹی کا گھروندا یا جنت کا محل

Beautiful Heart Touching Islamic Historical Story in Urdu