eid al fitr

 لیلۃ الجائزہ (انعام کی رات) عیدالفطر

 لیلۃ الجائزہ (انعام کی رات) عیدالفطر
عید کا لفظ ”عود“ سے بنا ہے، جس کا معنیٰ ہے: ”لوٹنا“، عید ہر سال لوٹتی ہے اور اسکے لوٹ کر آنے کی خواہش کی جاتی ہے۔ ”فطر“ کا معنیٰ ہے: ”روزہ توڑنا یا ختم کرنا“۔ عید الفطر کے روز روزوں کا سلسلہ ختم ہوتا ہے، اس روزاللہ تعالیٰ بندوں کو روزہ اور عبادتِ رمضان کا ثواب عطا فرماتے ہیں، لہذا اس دن کو ”عید الفطر“ قرار دیا گیا ہے۔
ہلال عید کی شہادت کے لئے دو مسلمانوں کا ہونا ضروری ہے۔ ایک کی شہادت منظور نہیں ہو سکتی۔ (مشکوٰۃ(
رویت ہلال کی دعا: نبی ﷺ نیا چاند دیکھ کر یہ دعا پڑھتے۔
"اَللّٰھُمَّ اؑھلَّه عَلَیْنَا بِالْأمْنِ وَالْإیْمَانِ وَالسَّلا مة وَالْإسْلَامِ رَبِّي وَرَبُّك اللّه" (ترمذی(
رسول کریمﷺ کا ارشادہے:
’’جب عیدالفطر کی رات ہوتی ہے تو اس کا نام (آسمانوں پر فرشتے) لیلۃ الجائزہ (انعام کی رات) سے لیا جاتا ہے اور جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اﷲ رحمن و رحیم اپنے فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتا ہے۔ وہ زمین پر اتر کر تمام گلیوں، راستوں کے سروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایسی آواز سے جسے جنات اور انسان کے سوا ہر مخلوق سنتی ہے پکارتے ہیں:’اے محمدؐ کی امت! اس کریم رب کی (بارگاہ) کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطا فرمانے والا ہے اور بڑے سے بڑے قصور معاف فرمانے والا ہے۔جبکہ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: ”جب مسلمانوں کی عید یعنی عید الفطر کا دن آتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں پر فخر فرماتا ہے، اے میرے فرشتو! اس مزدور کی کیا جزاءہے جو اپنا کام مکمل کر دے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں: اسکی جزاءیہ ہے کہ اس کو پورا اجرو ثواب عطا کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اے فرشتوں! میرے بندو ں اور باندیوں نے اپنا فرض ادا کیا پھر وہ (نماز عید کی صورت میں) دعاءکےلئے چلاتے ہوئے نکل آئے ہیں، مجھے میری عزت و جلال، میرے کرم اور میرے بلند مرتبہ کی قسم! میں اِن کی دعاں کو ضرو ر قبول کروں گا۔ پھر فرماتا ہے: بندو! تم گھروں کو لوٹ جا میں نے تمہیں بخش دیا اورتمہارے گناہوں کو نیکیوں میں بد ل دیا۔ پھر وہ بندے (عید کی نماز سے) لوٹتے ہیں حالانکہ اُنکے گناہ معاف ہوچکے ہوتے ہیں
عید کا دن جہاں خوشی و مسرت کے اظہار اور میل ملاپ کا دن ہوتا ہے وہاں عید کی رات میں کی جانے والی عبادت کی فضیلت عام دنوں میں کی جانے والے عبادت سے کئی گنا بڑھ کر ہے۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ قَامَ لَيْلَتَیِ العِيْدَيْنِ مُحْتَسِبًاِﷲِ لَمْ يَمُتْ قَلْبُهُ يَوْمَ تَمُوْتُ الْقُلُوْب.
 ابن ماجه، السنن، کتاب الصيام، باب فيمن قام فی ليلتی العيدين، 2 :  377، رقم :  1782
’’جو شخص عید الفطر اور عید الاضحی کی راتوں میں عبادت کی نیت سے قیام کرتا ہے، اس کا دل اس دن بھی فوت نہیں ہوگا جس دن تمام دل فوت ہو جائیں گے۔‘‘
یعنی فتنوں کے زمانہ میں یا حشر کے دن شاداں و فرحا ہو گا۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :مَنْ أَحْيَا اللَّيَالِی الْخَمْسَ، وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ :  لَيْلَةَ التَّرْوِيَة، وَلَيْلَةَ عَرَفَةَ، وَلَيْلَةَ النَّحْرِ، ولَيْلَةَ الْفِطْرِ، وَلَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ.منذری، الترغيب والترهيب، 1 :  182
’’جو شخص پانچ راتیں عبادت کرے، اس کے لئے جنت واجب ہوجاتی ہے۔ وہ راتیں یہ ہیں:  آٹھ ذو الحجہ، نو ذوالحجہ ،دس ذوالحجہ (یعنی عید الاضحیٰ) ، عید الفطر اور پندرہ شعبان (یعنی شبِ برات) ۔‘‘کو شب بیداری کی اس کےلئے جنت واجب ہو گئی۔
ہجرت مدینہ سے پہلے یثرب کے لوگ دوعیدیں مناتے تھے، جن میں وہ لہو و لعب میں مشغول ہوتے اور بے راہروی کے مرتکب ہوتے، چنانچہ نبی اکرمﷺ نے زمانہ جاہلیت کی دو غلط رسوم پر مشتمل عیدوں کی جگہ ”عید الفطر“ اور ”عید الاضحیٰ“ منانے اور ان دونوں عیدوں میں شرع کی حدود میں رہ کر خوشی منانے، اچھا لباس پہننے، اور بے راہ روی کی جگہ عبادت، صدقہ اور قربانی کا حکم دیا۔
انسان سے بتقاضائے بشریت حالت روزہ  میں بعض خطائیں اور غلطیاں ہو جاتی ہیںَ اس لئے رسول اللہﷺ نے صدقۃ الفطر فرض کیا، تاکہ روزے پاک صاف ہو کر مقبول ہو جائیں، جس طرح رمضان مبارک کے روزے فرض ہیں اسی طرح صدقۃ الفطرہر مسلمان پر چھوٹا ہو یا بڑا، غلام ہو یا آزاد،  جو لوگ کسی عذر کی وجہ سے روزہ نہ رکھتے ہیں ان پر بھی فرض ہے۔ نماز عید سے پہلے جو بچہ پیدا ہو اس کی طرف سے بھی صدقہ فطر ادا کرنا ضروری ہے کیونکہ اس سے مقصد یہ ہے کہ مساکین کو اس روز سوال سے بے نیاز کر دیا جائے۔لیکن اس کو پیشگی رمضان المبارک میں ادا کرنا بھی سنت صحابہ سے ثابت ہے، اس صورت میں رمضان المبارک کی برکت سے ثواب ستر گنہ زائد ملتا ہے۔ صدقۃ الفطر اجناس خوردنی سے دیا جائے جو  عام طور پر وہاں کے لوگوں کی خوراک ہو اور ہر چیز سے صاع حجازی دینا چاہئے۔ رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام نے صاع حجازی سے ہی صدقہ فطر ادا کیا ہے فطرانہ کی مقدار 4سیر اور ساڑھے 6چھٹانک(4کلواور111.50گرام) کھجور  یا  جو  یا  کشمش  یا پھر اس کی قیمت ہے اور یا 2سیر اور سوا 3چھٹانک(2کلو اور 55.75گرام) گندم یا اس کی قیمت ہے۔عید کی نماز سے پہلے ادا کرنا ضروری ہے۔ اگر عید کے بعد ادا کیا تو صدقہ فطر شمار نہ ہو گا۔حضورﷺ نے فرمایا کہ صدقہ فطر عید جانے سے پہلے ادا کرو۔ (بخاری)
عید سے دو تین روز پیشتر ادا کیا جائے تو بھی جائز ہے۔ عبد اللہ بن عمرؓ دو دن پہلے ہی صدقہ فطر مساکین کو دے دیا کرتے تھے۔ (بخاری)
صدقۃ الفطر میں نقدی دینا بھی جائز ہے: فقراء کی  ضروریات کو ملحوظ رکھتے ہوے صدقۃ الفطر میں غلہ کی بجائے نقدی، پیسے دینا بھی جائز ہے، حدیث میں ہے۔
”وَاَغنُواھُم فِی ھٰذَا الیَوم۔“یعنی اِس دن فقراء کو بے پرواہ کر دو۔
اِس حدیث سے یہ استدلال ہو سکتا ہے کہ مساکین کی ضروریات کے مطابق غلہ کے حساب سے نقدی دے سکتے ہیں۔
لہذا اگرچہ آٹے کی قیمت کے حساب سے سستا فطرانہ بھی جائز ہے لیکن جس طرح امیر لوگ قیمتی مکان بناتے ہیں ، قیمتی لباس پہنتے ہیں ،قیمتی خوراک کھاتے ہیں لہذا ان کے لیے مستحب ہے کہ وہ عجوہ کھجور یا پھر کشمش یا پھر عام کھجور کی قیمت کے حساب سے فطرانہ ادا کریں تاکہ حدیث نبوی ﷺ کے مطابق محتاج لوگ اپنی ضرورتیں احسن طریقہ سے پوری کر سکیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: رسول اللہﷺ نے صدقہ فطر واجب کیا تاکہ روزہ لغو اور بے ہودہ باتوں سے پاک ہوجائے اور مساکین کے لئے کھانے کا بندوبست بھی ہو جائے۔
 موطا امام مالک میں روایت ہے کہ ابن عمرؓ صدقہ فطر عید سے دو تین روز پہلے اس شخص کے پاس بھیج دیتے جس کے پاس جمع ہوتا تھا، اس سے معلوم ہوا کہ صدقہ فطر اور زکوٰۃ ایک جگہ جمع ہو کر بصورت بیت المال صاحب حاجات پر تقسیم کی جائے تو نہایت بہتر ہے۔
 2017 عیدالفطر
2017
نماز عید الفطر کا وقت سورج کے ایک نیزہ کے برابر بلند ہو نے سے ”ضحوہ کبریٰ“ تک ہے۔ ضحوہ کبریٰ  صبح صادق سے غروب آفتاب تک کے کل وقت کا نصف پورا ہونے پر آغاز ہوتا ہے
نبیﷺ نے عید الفطر اور عید الضحٰی کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا۔عید الفطر کے روز کچھ کھا کر نماز  کے لئے جانا اور عید الاضحیٰ سے پیشتر کچھ نہ کھانا مسنون ہے۔نمازِ عید میں آتے اور جاتے ہوئے آہستہ تکبیریں ”اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد۔“ اور راستہ تبدیل کرنا سنت ہے۔ نماز عید سے پہلے طاق عدد میں کھجور کھانا سنت ہے۔ عید کے روز غسل کرنا، خوشبو استعمال کرنا، اور اچھا لباس پہننا سنت ہے۔
 نمازِ عید خطبہ سے پہلے صرف دو رکعتیں واجب ہے ۔ اس میں نہ اذان ہے نہ اقامت (تکبیر) ۔ پہلی رکعت میں ثناءکے بعد اور دوسری رکعت میں قرآتِ سورت کے بعد ہاتھ آٹھا کر تین تین زائد تکبیریں مسنون ہیں۔ نماز عید الفطر کے بعد خطبہ سنت ہے۔
"پہلے نیت کریں
نیت کرتا ہوں میں دو رکعت نماز عیدالفطر کی زائد چھ تکبیروں کے ساتھ منہ میرا کعبہ شریف کی طرف واسطے اللہ تعالی کے پیچھے اس امام کے.
امام تکبیر کہہ کر ہاتھ باندھ کرثنا پڑھےگا ہمیں بھی تکبیر کہہ کر ہاتھ باندھ لینا ہے اس کے بعد تین زائد تكبيریں ہوں گی.
پہلی تکبیر کہہ كر ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑدینا ہے
دوسری تکبیر كہہ كر ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑدینا ہے
تيسری تکبیر کہہ کر ہاتھ کانوں تک اٹھا کر باندھ لینا ہے
اسكے بعد امام قرآت کرےگایعنی سورہ فاتحہ اور کوئی سورت پڑھے گااور رکوع سجدہ کرکے پہلی رکعت مکمل ہوگی. "آنحضرتﷺ پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سبح اسم ربك الأعلٰی اور دوسری میں ھل أتاك حدیث الغاشیة (مسند احمد) ۔ اور کبھی اسی ترتیب سے سورۂ ق اور اقتربت الساعة (سورۂ قمر) پڑھتے۔ (ترمذی، ابو دائود، ابن ماجہ۔"
دوسری رکعت کے لئے اٹھتے ہی امام قرآت کرے گا یعنی سورہ فاتحہ اور کوئی سورت پڑھےگا اس کے بعدرکوع میں جانے سے پہلے زائد تینوں تكبيرے ہوں گی
پہلی تکبیر کہہ كر ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑدینا ہے
دوسری تکبیر كہہ كر ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑدینا ہے
تيسری تکبیر کہہ کر ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دینا ہے
یہاں تک زائد تكبيرے مکمل ہوگئ.
اب اس کے بعد بغیر ہاتھ اٹھاے تکبیر کہہ کر رکوع میں جاینگے.اور آگے کی نماز دوسری نمازوں کی طرح پڑھنا ہےپھر سلام پھیرنا ہوگی"۔
حضرت شیخ عبد القادر  جیلانیؒ مسائل عید کے بیان میں فرماتے ہیں۔ "والأولىٰ أن تقام في الصحراء وتكرہ في الجامع إلا لعذر "(غنیةالطالبین مطبع صدیقی لاھور ص 542
خدانخواستہ کوئی شخص عید کی  جماعت میں شامل نہیں ہو سکا تو اسی میدان میں وہ خود مسنون طریقہ سے دو رکعت نماز ادا کرے۔ بخاری
نمازِ عید کے بعد مسلمان آپس میں  ملاقات کریں تو ایک دوسرے کو عید کی مبارک باد ان الفاظ میں دیں۔
تَقَبَّل اللّٰہُ مِنَّا وَ مِنْكَ۔ (مجمع الزوائد جلد ۲ صفحہ ۲۰۶(
اللہ تعالیٰ ہم سب کی عید اور دیگر اعمال صالحہ قبول فرمائے۔
عید الفطر کے روز روزہ رکھنا حرام ہے۔ عید الفطر کے بعد مسلسل یا وقفہ کے ساتھ ماہِ شوال کے 6روزے رکھنا بہت زیادہ ثواب کا باعث ہے۔
 نبیﷺ نے فرمایا  :مَنْ صَامَ رَمَضَاَ ن  ثُمّ أتْبَعه سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ
جو شخص رمضان کے روزے رکھ کر عید کے بعد چھ روزے ماہ شوال کے رکھے، وہ ہمیشہ روزہ رکھنے کا ثواب پائے گا۔ (مسلم، ترمذی، ابن ماجہ(


Comments

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Popular posts from this blog

Mint and Cucumber detox water

Watermelon a symbol of Summer

Unique secret of a Healthy Life from Basil Seeds

مٹی کا گھروندا یا جنت کا محل

سلام کو عام کرو

موت کے سوا ہر مرض کا علاج

Repentance, The act of seeking forgiveness

آپ بچوں کے ماں باپ ہیں، بچے آپکے نہیں

Mango is a true symbol of the season.