hazrat baba bulleh shah



حضرت بُلھے شاہ ؒ 


پڑھی نماز تے نیاز نہ سِکھیا , , تیریاں کِس کَم پڑھیاں نمازاں

ترجمہ ۔ تم نماز پڑھتے ہو مگر تمھارے اندر ابھی تک عجز نہیں آیا ۔ ایسی نماز کا کیا فائدہ

...علم پڑھیا تے عمل نہ کیتا , , تیریاں کِس کَم کیتیاں واگاں
ترجمہ ۔ تم نے بہت ساری کتابیں پڑھ لیں ہیں مگر تم ان کے اندر لکھے ہوئے احکامات پر عمل نہیں کرتے ہو ۔ اس سارے علم کا کیا فائدہ

نہ کَہر ڈِٹَھا نہ کَہر والا ڈِٹَھا , , تیریاں کِس کَم دِتیاں نیازاں
ترجمہ ۔ جب تمہیں خدا کے سخت عدل کا اندازہ ہی نہیں تو تمہارے دکھاوے کے صدقے اور خیرات کا کیا فائدہ


بُلھے شاہ پتہ تَد لگ سی , , جدوں چِڑی پَھسی ہتھ بازاں

ترجمہ ۔ بُلھے شاہ تب پتہ چلے گا جب تم روز آخرت اپنا حساب کتاب پیش کرو گے


کھا آرام تے پڑھ شکرانہ , , کر توبہ ترک ثوابوں
ترجمہ ۔ تم رزق حلال کھاو اور اس خدا کا شکر ادا کرو ۔ اور نیک اعمال کو محض ثواب کی خاطر مت کرو

چھڈ مسیت تے پکڑ کنارہ , , تیری چُھٹے جان عذابوں
ترجمہ ۔ بے مغز عبادت تجھے کوئی فائدہ نہیں دے گی ۔ ایسی عبادت سے سے نہ کرنا اچھا ہے

نہ کہو کلمہ جہیڑا کہندا مُنکر وے تو ہو روں اِک ثوابوں
ترجمہ ۔ اور تکبر کے کلمات منہ سے مت نکالو ورنہ تمہاری ساری نیکیاں ضائع ہو جائیں گی

بُلھے شاہ چل اُتھے وسیے , , جِتھے منع نہ کرنڑ شرابوں
ترجمہ ۔ بُلھے شاہ چلو کسی ایسی جگہ چل رہیں جہاں محبت کی بات کرنے کی آزادی ہو اور اس کو برا نہ سمجھا جائے

سِر تے ٹوپی تے نیت کھوٹی , , لینا کی سِر ٹوپی تَرھ کے؟
ترجمہ ۔ نماز پڑھنے کو ٹوپی سر پر رکھتے ہو اور اپنی نیت نیک اعمال کے لیے صاف نہیں رکھتے ۔ ایسے ٹوپی سر پر رکھنے کا کیا فائدہ

تسبیح پھِری پر دِل نہ پھِریا ،، لینا کی تسبیح ہتھ پَھڑ کے
ترجمہ ۔ تم ہاتھ میں تسبیح پکڑ کے اس کے دانے پھیرتے رہتے ہو مگر تمھارا دل ہوس کا غلام ہے ایسی تسبیح پھیرنے کا کیا نتیجہ

چلِے کیتے پر رب نہ ملیا ،، لینا کی چِلیاں وِچ وَڑھ کے
ترجمہ ۔ سخت ریاضت اور چلے کی مشقت کرنے سے رب نہ ملا ۔اسے چلوں سے دوری بھلی

بُلھے شاہ جاگ بِنا دُدھ نہیں جمندا ،، پانویں لال ہووے کڑھ کڑھ کے
ترجمہ ۔ بلھے شاہ جب تک دودھ کو لسی سے جامن نہ لگایا جائے دہی نہیں بنتا چاہے چولہے پر پڑا گرم ہو ہو کر لال ہو جائے۔ ایسے ہی کسے اہل نظر رہبر کے بغیر تم مکمل نہیں ہو سکتے

پڑھ پڑھ عالم فاضل ہویا ،، کدے اپنڑے آپ نوں پڑھیا نئیں
ترجمہ ۔ تم کتابیں پڑھ کر عالم اور فاضل کہلاتے ہو مگر اپنے من کی دنیا کا مطالعہ نہیں کرتے ہو

جا جا وَڑدا مسجداں مندراں اندر ،، کدی اپنڑے اندر توں وَڑیا ای نہیں
ترجمہ ۔ تم کبھی مسجد اور کبھی مندر جاتے ہو مگر کبھی اپنے من کی دنیا میں داخل نہیں ہوئے

ایویں روز شیطان نال لڑدا ایں ،، کدی نفس اپنڑے نال توں لڑیا ای نہیں
ترجمہ ۔ تم روز شیطان کے خلاف لڑتے ہو مگر کبھی اپنے نفس کی خوہشات کے خلاف بھی لڑائی کی ہے؟

بُلھے شاہ اسمانی اُڈدیاں پھَڑدا ایں ،، جہڑا کہر بیٹھا اونوں پھڑیا ای نہیں
ترجمہ ۔ بُلھے شاہ تم گفتگو میں عالم بالا کی بات کرتے ہو مگر زمیں پرتمہارے اندر جو ایک طاقتور نفس ہے اس کو پکڑ کر قید کرو تو مانیں
--------------------------------------------------

حضرت بُلھے شاہ کا حقیقی نام سید عبداللہ شاہ تھا ۔ آپکے والد کا نام سید سخی شاہ محمد درویش تھا جن کا خاندانی سلسلہ شیخ عبدالقادر جیلانؒی سے جا ملتا ہے ۔ حضرت بُلھے شاہ کے اجداد چوتھی صدی میں حلب سے ہجرت کرکے اُچ گیلانیاں میں آباد ہوگئے تھے۔ اُچ گیلانیاں بہاولپور کی تحصیل شجاع آباد کی سب تحصیل جلال پور پیر والا میں واقع ہے ۔

حضرت بُلھے شاہ کے والد ایک متقی درویش تھے اور اچ گیلانیاں کی مسجد کے امام تھے ۔ آپ اچ گیلانیاں سے نقل مکانی کر کے ملک وال چلے گئے۔ وہاں بھی ان کی درویشی اور صوفیانہ مسلک کی وجہ سے انہیں امام مسجد بنادیا گیا۔ انہوں نے وہاں مذہبی اور روحانی تعلیمات کا سلسلہ شروع کیا۔
موضع " پانڈوکے " کا ایک بڑا زمیندار پانڈو خان آپکے والد سید سخی سے ملک وال میں ملا۔ ان کی پرہیز گاری اور معزز شخصیت سے متاثر ہوکر ان سے درخواست کی کہ وہ موضع پانڈوکے مسجد کے امام بن جائیں کیونکہ وہاں کوئی سید نہیں ہے۔ پانڈو خاں کی درخواست پر حضرت بلھے شاہ کے والد پانڈوکے میں بمعہ خاندان کے منتقل ہوگئے ۔

حضرت بُلھے شاہ ؒ اور اس کی دونوں بہنوں نے شادی نہیں کی تھی اس لئے اس کے خاندان کا کوئی وارث نہیں ہے پانڈو کے میں ایک چھوٹا سا عماراتی کمپلیکس ہے۔ قدرے بلند جگہ پر ایک بڑا سا ہال ہے جس کے اندر تین قبریں ہیں، درمیان کی قبر حضرت بُلھے شاہ ؒ کی والدہ کی ہے جن کا نام فاطمہ بی بی تھا۔ اس کے دائیں اور بائیں ان کی دو بہنوں کی قبریں ہیں ۔حضرت بُلھے شاہ کی مسجد کے عقبی جانب ایک سبز گنبد ہے جس کے نیچے بلھے شاہ کے والد دفن ہیں ۔ اس سے ملحقہ پانڈو خاں کی مسجد ہے جس کے امام حضرت بلھے شاہ ؒکے والد تھے۔"پانڈو کے لاہور سے 28 کلو میٹردور قصور کی طرف جاتی ہوئی سڑک سے دائیں جانب چار پانچ کلو میٹر اندر واقع ایک چھوٹا سا گاﺅں ہے"۔

حضرت بُلھے شاہ نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی تھی جس کے بعد انہیں مزید تعلیم کیلئے قصور بھیج دیا گیا جہاں وہ اس علاقے کے مشہور عالم حافظ غلام مرتضیٰ کے شاگرد بن گئے جن سے حضرت بُلھے شاہ نے مذہبی تعلیم کے علاوہ عربی فارسی اور تصوف کی تعلیم حاصل کی۔ حافظ غلام مرتضیٰ سے حضرت بُلھے شاہ ؒ کے علاوہ وارث شاہ ؒ نے بھی تعلیم حاصل کی تھی۔ روایت ہے کہ حافظ غلام مرتضیٰ نے ان دونوں کے بارے میں کہا تھا۔
مجھے دو شاگرد عجیب ملے ہیں، ان میں ایک بُلھے شاہ ہے ۔جس نے علم حاصل کرنے کے بعد سارنگی ہاتھ میں پکڑ لی دوسرا وارث شاہ ہے جو عالم بن کے ہیر رانجھا کے گیت گانے لگا۔

حضرت بُلھے شاہ کی ابتدائی زندگی کے بارے میں جو واقعات ہم تک پہنچتے ہیں ان کے مطابق اس میں انسانی برابری، لوگوں کی مدد، طبیعت میں درویشی کے رجحانات نمایاں تھے، اسی ناطے اس کی ابتدائی کرامتوں کا ذکر بھی کیاجاتا ہے۔ حضرت بُلھے شاہ ؒ ایک امام مسجد کی واحد نرینہ اولاد تھے۔ اسکے لئے اپنے باپ کی گدی سنبھالنی کوئی مشکل نہیں تھی لیکن وہ کسی اور راہ کے مسافر تھے۔ حضرت بُلھے شاہؒ کے والد نے انہیں چرواہا بنایا ۔ لیکن حضرت بُلھے شاہؒ کو یہ پیشہ منظور نہیں تھا۔ وہ اپنے عہد کی زندگی سے منحرف تھے اور اس انحراف کی ایک وجہ اس دور کے ظاہری علماء کی شریعت سے دوری تھی، وہ اپنے عہد کے مولویوں، پارساﺅں اور مفتیوں کا تمسخر اڑاتے تھے کہ انہوں نے منافقت کا لبادہ اوڑھا ہوا تھا، یوں لگتا ہے کہ حضرت بُلھے شاہؒ اپنے گاﺅں یا شہر کے لوگوں کے تعصب، مذہبی رجعت پسندی اور منافقت سے کافی بیزار تھے ۔ وہ نہ صرف "پانڈو کے" سے بلکہ قصور سے بھی ناخوش تھے۔ اپنے والد کے خلاف یہ بغاوت تھی۔ وہ مسجد کا امام بھی نہیں بنناچاہتے تھے۔ وہ مذہب کو اپنے وجدانی تجربے کے ذریعے دریافت کرناچاہتے تھے۔ چنانچہ وہ ایک مرشد کی تلاش میں قصور چلے گئے



قصور بے دستور اوتھے جانا بنیا ضرور
نہ کوئی پن نہ کوئی دان ہے نہ کوئی لاگ دستور

حقیقت کی تلاش بلھےشاہ کو مرشد کامل حضرت شاہ عنایت قادری کے در پر لے گئی۔ باباعنایت شاہ قادری کا ڈیرا لاہورميں تھا۔ آپ ذات کےآرائیں تھے اور کھیتی باڑی اور باغبانی پر گزارا کرتے تھے۔ شاہ عنایت کی صحبت نے بلھے شاہ کو بدل کر رکھ دیا اور بلھےشاہ بے اختیار پکار اٹھے

بلھیا جے توں باغ بہاراں لوڑیں
چاکر ہو جا رائیں دے
ایک سید کا ایک معمولی آرائیں کو اپنا مرشد مان لینا کوئی معمولی بات نا تھی۔ بلھے شاہ کو اپنی ذات برادری کے لوگوں کی مخالفت اور کئی قسم کے طعنے برداشت کرنے پڑے۔ بلھے شاہ نے بڑی بے خوفی سے اس بات کا اعلان کیا کہ مرشد کامل خواہ کسی ادنا سے ادنا ذات میں آۓ ہوں ان کا دامن پکڑکر ہی انسان بہر ہستی سے پار اتر سکتا ہے۔ وہ بے دھڑک ہو کر کہتے ہیں کہ سید ذات کا غرور کرنے والے دوزخ کی آگ میں جلیں گے

آپنے قرآن ناظرہ کے علاوہ گلستان بوستان اور منطق ، نحو، معانی، کنز قدوری ،شرح وقایہ ، سبقاء اور بحراطبواة بھی پڑھا۔ شطاریہ خیالات سے بھی مستفید ہو ئے۔ مرشد کی حیثیت سے شاہ عنایت قادری کے ساتھ ان کا جنون آمیز رشتہ ان کی مابعد الطبیعات سے پیدا ہوا تھا۔ مصلحت اندیشی اور مطابقت پذیری کبھی بھی ان کی ذات کا حصہ نہ بن سکی۔ ظاہر پسندی پر تنقید ہمہ وقت ان کی شاعری کا پسندیدہ جزو رہی۔ ان کی شاعری میں شرع اور عشق ہمیشہ متصادم نظر آتے ہیں اور ان کی ہمدردیاں ہمیشہ عشق کے ساتھ ہوتی ہیں۔ ان کے کام میں عشق ایک ایسی زبردست قوت بن کر سامنے آتا ہے جس کے آگے شرع بند نہیں باندھ سکتی ۔ اپنی شاعری میں وہ مذہبی ضابطوں پر ہی تنقید نہیں کرتے بلکہ ترکِ دنیا کی مذمت بھی کرتے ہیں اور محض علم کے جمع کر نے کو وبالِ جان قرار دیتے ہیں۔
 علم کی مخالفت اصل میں” علم بغیر عمل“ کی مخالفت ہے۔

بُلھے شاہ کا انتقال 1757ء میں قصور میں ہوا اور یہیں دفن ہوئے۔ ان کے مزار پر آج تک عقیدت مند ہر سال ان کی صوفیانہ شاعری گا کر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔

Comments

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Popular posts from this blog

Mint and Cucumber detox water

Watermelon a symbol of Summer

Unique secret of a Healthy Life from Basil Seeds

مٹی کا گھروندا یا جنت کا محل

سلام کو عام کرو

موت کے سوا ہر مرض کا علاج

Repentance, The act of seeking forgiveness

آپ بچوں کے ماں باپ ہیں، بچے آپکے نہیں

Beautiful Heart Touching Islamic Historical Story in Urdu