مٹی کا گھروندا یا جنت کا محل



مٹی کا گھروندا یا جنت کا محل

ایک دفعہ ہارون رشید سر شام دجلہ کی سیر کو نکلے۔

 ملکہ زبیدہ بھی پالکی میں ہمراہ تھی ۔ دریاکنارے ایک مجذوب کو دیکھا کہ مٹی کے گھروندے بنا رہا ہے۔

 ہارون رشید نے پوچھا، یہ کیا ہے۔
مجذوب بولا”جنت کے گھروندے ہیں۔ خریدوگے؟“۔
ہارون رشید ہنس دیئے اور گزر گئے۔ ملکہ زبیدہ کی پالکی مجذوب کے قریب سے گزری۔
پوچھا،”یہ کیا ہیں؟“۔
مجذوب بولا”جنت کے گھروندے ہیں خریدوگی؟“۔
”بصد شوق“ملکہ زبیدہ نے اشتیاق ظاہر کیا۔
”کتنے لو گی؟“
سوال ہوا۔”جتنے ہیں سبھی دیدو“۔
ملکہ نے ایک قیمتی موتی مجذوب کے حوالے کر دیا۔

 رات کوہارون رشید نے خواب دیکھا کہ ایک بہت بڑا آبدار موتی ہے اتنا بڑا کہ اس میں ایک باوقارمحل بنا ہوا ہے۔ اس کی پیشانی پر لکھا ہے”قصر زبیدہ“۔ ہارون رشید اس میں داخل ہونا چاہتا ہے تو درشت رو دربان اس کی راہ روک لیتے ہیں کہ زبیدہ کے محل میں اجنبی داخل نہیں ہو سکتے۔آنکھ کھلتی ہے تو ہارون رشید کو ایک ہی فکر کہ وہ سودا جو کل نہ ہو سکا آج ہو جائے۔

 شام ہوئی سیر کو نکلا۔ مجذوب دریا کنارے موجود تھا۔ گھروندے بنا رہا تھا۔
پوچھا”یہ کیا ہیں؟“ مجذوب بولا ”ریت کے گھروندے“ ”اور وہ جنت کے گھروندے کیا ہوئے“ہارون رشید نے پوچھا۔ ”میاں وہ غیب کا سودا تھا۔ مشاہدے کے بعد تو شوق شوق نہیں رہتا۔لالچ کہلائے گا“۔

Comments

More post for you might like it

مسکراھٹ و خاموشی smile & silence

داستان ِبہلول

ٹھوکر وہی کھاتا ہے جو راستے کے پتھر نہیں ہٹاتا

A vibe can reveal all

موت کا سایہ

Dream Come True

تم دونوں میرے کام کے نہ بنے

This fascinating truth about woodpeckers may surprise you.

طرز ِکلام

آپ بچوں کے ماں باپ ہیں، بچے آپکے نہیں